• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے استنبول کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے، جس کے بعد سے عالمی سطح پر اُن کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے یونیسکو کے عالمی تاریخی ورثے میں شامل اس مقام کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی۔ آیا صوفیہ مسیحی بازنطینی اور مسلمان سلطنت عثمانیہ دونوں کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔

آیا صوفیہ دنیا کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کی حامل تاریخی عمارت ہے۔ ترکی میں سیاح سب سے زیادہ اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں۔

آیا صوفیہ کی تاریخ کیا ہے؟

آیا صوفیہ کو 1500 سال پہلے بازنطینی عہد میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 900 سال بعد سلطنت عثمانیہ کی فوج نے استنبول پر قبضہ کیا اور اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔ 80 سال قبل خلافت عثمانیہ ختم ہوئی تو اسے عجائب گھر بنادیا گیا تھا۔

یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے اس کی تعمیر کا حکم 532 میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ یہ بیزنٹائن سلطنت (جسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا ہے) کا دارالحکومت بھی تھا۔

 1453 میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

تقریباً نو سو سال تک آورتھوڈوکس چرچ کا گھر رہنے والی عمارت آیا صوفیہ میں داخل ہوتے وقت سلطان محمد دوئم کا اصرار تھا کہ اس کی تعمیرِ نو کی جائے اور اسے ایک مسجد بنایا جائے۔ انہوں نے اس میں جمعے کی نماز بھی پڑھی۔

ترکی میں قدامت پرست مذہبی رہنما اور قوم پرست برسوں سے آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر اردوان نے ان کوششوں میں اپنا حصہ ایسے وقت میں ڈالا جب ان کی سیاسی حمایت کم ہورہی ہے۔

آیا صوفیہ کا بڑا گنبد استنبول کے منظر کا لازمی حصہ ہے جہاں ہر سال 30 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ یہ 2019 میں 38 لاکھ سیاحوں کے ساتھ ترکی کا معروف ترین مقام تھا۔ حالیہ برسوں کے دوران اس میوزیم میں مذہبی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔

عالمی سطح پر اس فیصلے پر تنقید:

اگرچہ آیا صوفیہ کو مسجد میں بدلنے سے سیاحوں کو آنے سے نہیں روکا جائے گا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی نوعیت میں تبدیلی سے اس کی کشش میں کمی آئے گی۔ امریکہ اور یونان نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امریکا کے سفیر برائے مذہبی آزادی سیم براؤن بیک نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آیا صوفیہ کے درجے میں تبدیلی سے اس کی مختلف مذاہب کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔

یونان کی وزیر ثقافت لینا منڈونی نے اس عدالتی فیصلے کو مہذب دنیا کے لیے 'کھلی اشتعال انگیزی' قرار دیتے ہوئے کہا ’آج کا فیصلہ، جو صدر اردوان کی سیاسی خواہش کا نتیجہ ہے، مہذب دنیا کے لیے کھلی اشتعال انگیزی ہے، جو اس یادگار کو اتحاد کی علامت سمجھتی اور اس کی منفرد خصوصیت کو جانتی ہے۔‘

عالمی ثقافتی ورثے کی دیکھ بھال سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ترک حکام سے کہا ہے کہ وہ بلا تاخیر اس بارے میں گفت و شنید کرے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تُرک صدر اردون ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ترکی کی خود مختاری کا معاملہ ہے۔

تازہ ترین