آج کل قرنطینہ کا بہت چرچا ہے ۔ کورونا کے پھیلاو کے بعد لفظ قرنطینہ اردو زبان میں استعمال بھی بہت ہونے لگا ہے۔ اردو میں لفظ قرنطینہ عربی اور فارسی کے توسط سے داخل ہوا ہے اور یہ انگریزی کے لفظ کورنٹین (quarantine) کی معر ّب و مفرّس شکل ہے۔
قرنطینہ کے معنی ہیں : وہ حالت یا مدت یا مقام جس میں کسی ایسے شخص یا جانور کوعلیحدہ رکھا جائے جس کے کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو (تاکہ یہ بیماری کسی اور کو نہ لگ جائے )۔وبائی امراض کو پھیلنے سے روکنے کا یہ بہت قدیم طریقہ ہے۔ اردو لغت بورڈ کی لغت نے اردو میںلفظ قرنطینہ کے قدیم ترین استعمال کی جو سند دی ہے وہ ۱۸۹۳ء کی ہے ۔ بورڈ نے قرنطینہ کے ایک معنی ’’قید ِ طبی ‘‘ بھی درج کیے ہیں ۔لیکن قرنطینہ کے مترادف یا مراد ف کے طور پر قید ِ طبّی کی بجاے طبّی تنہائی یا طبّی علیحدگی بہتر ہوگا۔
صرف ’’تنہائی ‘‘ بھی ’’آئسولیشن‘‘کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، اگرچہ آج کل ذرائع ابلاغ اس مفہوم کے لیے انگریزی لفظ آئسولیشن (isolation) بھی بے دھڑک استعمال کررہے ہیں جس کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ ابراہیم جلیس نے اپنے رپور تاژ’’جیل کے دن جیل کی راتیں ‘‘ میں لکھا ہے کہ جیل کے جس وارڈ میں نفسیاتی امراض میں مبتلا قیدیوں کو الگ رکھا جاتا تھا اسے عام قیدی ’’چریا وارڈ ‘‘ کہتے تھے۔اسی سے متاثر ہوکر ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈ کے باہر اور کچھ نہیں تواردو میں ’’اکیلا وارڈ ‘‘ ہی لکھ دیا جائے، کم از کم آئسولیشن وارڈ سے تو بہتر ہے اور عام فہم بھی ہے۔ لیکن اکیلا وارڈ تو نہیں ، غالباً ’’تنہائی وارڈ ‘‘ بہتر ہوگا۔
اوکسفرڈ کی انگریزی لغت نے لفظ ’’کورنٹین‘‘ کی مختصر تاریخ بھی دی ہے ۔اس کے مطابق یہ لفظ انگریزی زبان میں سولھویں صدی عیسوی میں اطالوی (Italian)زبان سے آیا اور اس کی اصل اطالوی زبان کا لفظ کورنٹینا (quarantina) ہے جس کے لفظی معنی ہیں ’’چالیس دن‘‘۔ اطالوی میں یہ کورنٹا (quaranta) سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ’’چالیس‘‘۔ کسی زمانے میں اطالوی زبان میں کورنٹینا کا مطلب تھا چالیس دن کی مدت جس کے دوران میں حال ہی میں بیوہ ہونے والی عورت کو اپنے آں جہانی شوہر کے گھر میں مقیم رہنے کی اجازت تھی۔بعد میں اس کا مفہوم تبدیل ہوا اور انگریزی میں یہ قرنطینہ کے موجود ہ معنی (یعنی بیماری کے اندیشے کے سبب الگ تھلگ رہنے کی حالت یا مدت یا جگہ)میں رائج ہوگیا ۔ البتہ اس کے مفہوم میںاب چالیس دنوںکی بجاے تنہا یا علیحدہ رہنے پر زورہے اور دنوں کی تعداد بھی چالیس ضروری نہیں بلکہ اس کا دارومدار بیماری اور اس کی نوعیت پر ہوتا ہے۔
٭…بُز ، بُز دِل اور بُز ِ اَخفَش
’’بُز ‘‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے بکری۔ گویا جس کا دل بکری جیسا ہو ، یعنی جو بکری کی طرح فوراً ڈر جائے وہ بز دل ہے۔ اسی لیے ڈرپوک کے مفہوم میں بزدل مستعمل ہے۔ اور جو بہادر ہو اسے شیر دل کہتے ہیں۔بُزدار میں بھی یہی بُز ہے ، مراد ہے بکریوں والا،وہ جس کے پاس بکریاں ہوں۔پاکستان کے بعض علاقوں میں بزدار صاحب ِ حیثیت یا سردار کے لیے بھی مستعمل ہے۔بز کا لفظ بُزکَشی میں بھی ہے ۔ بز کشی ایک کھیل ہے جو میدان میں کھیلا جاتا ہے اور جس میں گھڑ سوار کھلاڑی بکری کو کھینچ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بکری کے بچے کو بُز غالہ کہا جاتا ہے ۔ پہاڑی بکرے کو بُز ِ کوہی کہتے ہیں،کوہ یعنی پہاڑ ،کوہی یعنی پہاڑ سے متعلق یا پہاڑ کا ، پہاڑی ۔
ایک اور ترکیب جس میں لفظ بُز استعمال ہوتا ہے ’’ بُز ِ اَخفَش‘‘ ہے( اخفش میں الف اور فے پر زبر ہے ) ۔اس ترکیب کا مطلب ہے: جو سمجھے بوجھے بغیر ہاں میں ہاں ملائے ، وہ جس کا دماغ خالی ہو،یعنی احمق۔ اس پر یاد آیا کہ ایک بار ایک طالب علم نے فون کرکے پوچھا کہ بُزِاَ خفش کاکیا مطلب ہے ؟ یہ سوال اساتذہ کے انتخاب کی غرض سے لیے گئے ایک امتحان میں پوچھا گیا تھا جس میں وہ طالب علم شریک ہوا تھا۔
لیکن وہ بے چارہ اس ترکیب کو سمجھ ہی نہ سکا تھا اور اس میں’’ بُز‘‘ اور’’ اخفش ‘‘کو الگ الگ پڑھنے کی بجاے ’’بُزا ‘‘کو الگ اور’’ خفش ‘‘کو الگ پڑھ رہا تھا۔دل چاہا کہ اس سے کہوں کہ اس کا مطلب آپ خود ہی ہیں۔ لیکن بہرحال طالب علم تھا اور طلب ِ علم میں تھا لہٰذا اسے بتایا کہ اس ترکیب کا درست تلفظ بُزِ اَخفش ہے اوربُز کا مطلب ہے بکری ، بُزِ اخفش کے لفظی معنی ہیں اخفش کی بکری اور مراد ی معنی ہیں بغیر سمجھے تائید کرنے والا۔
پھر اسے قصہ سنایا کہ سچ یا جھوٹ خدا معلوم ،لیکن مشہور ہے کہ کسی زمانے میں عربی کا کوئی عالم تھا جس کا نام اَخفش تھا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ طالب علم تھا تو اس کے پاس ایک بکری تھی ۔ وہ سبق یاد کرکے اسے اپنی بکری کے سامنے پڑھتا ، اگر بکری سر ہلا دیتی تو مان لیتا کہ سبق درست یاد ہوگیا ہے ۔ ایک دن بکری کو جب کاٹا گیا اور اس کی سری بنائی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کی کھوپڑی خالی تھی اور اس میں بھیجا نہیں تھا ۔ اس دن سے بُزِ اَخفَش کی ترکیب زباں زدِ خاص وعام ہوگئی اور جس کی کھوپڑی خالی ہو اسے بزِ اخفش کہنے لگے۔
بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اخفش نے علم ِ عروض ایجاد کیا تھا اورو ہ ہر نئی بحر بنانے کے بعد اسے بکری کے سامنے تصدیق و تائید کے لیے پڑھتا تھا۔ فرہنگ ِ آصفیہ میں بھی یہ قصہ درج ہے اور اس میں بحروں کا نہیں بلکہ بکری کے سامنے سبق یاد کرنے کا ذکر ہے۔ لیکن سبق ہو یا بحریں،یہ قصہ من گھڑت ہی معلوم ہوتا ہے۔البتہ بُزِ اَخفش کا مفہوم یعنی بے سمجھے ہاں میں ہاں ملانے والایا مغزسے تہی اپنی جگہ درست ہے۔
چلتے چلتے اَخفَش کے لفظی معنی کو بھی دیکھ لیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مفہوم ہے: چھوٹی آنکھوں والا، چندھیائی آنکھوں والا، کمزور بصارت کا حامل شخص۔ کہتے ہیں کہ اخفش کے نام سے مشہور اس عالم کی آنکھیں چھوٹی تھیں ۔ اسٹین گاس نے تو اپنی لغت میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس نام کے تین قواعد داں گزرے ہیں۔