حوزے ساراماگو (Jose Saramago)پرتگال کے معروف ادیب تھے جنہوں نے کئی ناول تخلیق کیے۔ناولوں کے علاوہ انہوں نے افسانے، ڈرامے، روزنامچے، سفرنامے، اخباری کالم اور تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے۔۱۹۲۲ء میں اپنے چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہونے اور افلاس کی آغوش میں زندگی کے سفر کاآغاز کرنے والے حوزے ساراماگو کا نام عالمی ادب کے افق پر اُس وقت چمکا جب ۱۹۹۸ء میں اُن کو ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیاگیا۔حوزے ساراماگو نے ۲۰۱۰ء میں ۸۷ سال کی عمر میں انتقال کیا۔اُس وقت تک وہ اپنے ملک کے ہر دلعزیز ترین ادیب بن چکے تھے۔
’اندھے لوگ‘ساراماگو کے ناولBlindnessکا ترجمہ ہے۔اس خاصے مشکل ناول کا ترجمہ معروف شاعر احمد مشتاق نے کیا ہے اور سچی بات ہے کہ ایک اچھے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔اس وقت ہمارے پیشِ نظر یہی اردو ترجمہ ہے۔
’اندھے لوگ‘ دو اعتبار سے بڑا صبر آزما ناول ہے۔ ایک تو اس ناول کا طرزِ تحریر ہے۔ظاہر ہے،ناول میں بہت سے کردار ہیں،اُن کی ایک دوسرے سے گفتگو ہے۔دو کردار آپس میں کسی تیسرے کردار کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں،پھر ناول میں ایک راوی ہے جس کے بیان کے دوران ہی کردار متعارف ہوتے ہیں،اور اُن کے مکالمے جگہ پاتے ہیں مگر جو چیز غیر معمولی ہے وہ یہ کہ ساراماگو کہیں بھی مکالموں کو واوین (commas)میں درج نہیں کرتے،بلکہ مکالمات اوپر نیچے سطروں میں بھی درج نہیں کیے گئے۔سب مکالمے اور راوی کا بیان ایک تسلسل کے ساتھ،ایک جاری عبارت کی شکل میں لکھ دیے گئے ہیں۔توجہ سے نہ پڑھا جائے تو قاری ایک مقام پر آکر الجھن کا شکار ہوسکتا ہے کہ کس کا جملہ کہاں ختم ہوا اورکس کا فقرہ کہاں سے شروع ہوا۔
پہلے کون بول رہا تھا،اب کون اظہارِ خیال کررہا ہے۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے راوی مکالموں کو آگے بڑھواتارہتا ہے،جملوں کی ترتیب سے پڑھنے والا خود اندازہ لگاتا ہے کہ کون سی بات کس نے کہی۔ پھر پورے ناول میں کسی کردار کا نام نہیں ہے بلکہ صرف شناختیں ہیں_راوی کے بیان میں ان شناختوں ہی کی نسبت سے مکالمے درج ہوتے ہیں۔ ’ڈاکٹر‘، ’ڈاکٹر کی بیوی‘،’کالے چشمے والی لڑکی‘،’بھینگی آنکھوں والا لڑکا‘،’پہلا اندھا آدمی‘_وغیرہ وغیرہ ۔یہ ناول کے چند کردار ہیں،ان کرداروں کے مکالموں کوواوین یا کسی اور علامت سے نمایاں نہیں کیا گیا ۔سارا ماگو نے یہ انداز کیوں اختیار کیا اور پڑھنے والے کو آزمائش میں کیوں ڈالا؟ شاید اس لیے کہ ناول کو جو بھی پڑھے،اس میں پوری طرح اتر کر پڑھے۔
دوسری آزمائش اس ناول کی خود اس کے پلاٹ میں مضمر ہے۔اس علامتی ناول کے تجزیے سے قبل آئیں اس کے پلاٹ کو دیکھیں۔جیسا کہ کہا گیا کہ یہ بڑا صبر آزما ناول ہے۔اس میں ایسے مقام آتے ہیں جہاں پڑھنے والا سکتے میں آجاتا ہے۔اس میں ایسے مناظر، ایسی تکلیف دہ صورت حال بیان ہوئی ہے جس کو پڑھنا تکلیف دہ ہوتا ہے ،یہاں تک کہ کہیں کہیں طبیعت متلانے بھی لگتی ہے مگر یہ سب مرحلے طے کرجائیں تو ناول کی معنویت دو چند ہوجاتی ہے۔ناول میں پوشیدہ رمز اور علامتیں کھلنے لگتی ہیں تو مطالعے میں آسودگی اور سوچ میں نکھار آتا چلا جاتا ہے۔
ناول میںچھوت کی جس وبا کا ذکر ہے،وہ حقیقت میں کبھی نہیں پھوٹی۔کسی انسانی معاشرے نے کبھی اس کو نہیں بھگتا۔یہ خیالی وبا خالص ناول نگار کی تخلیق کردہ ہے۔وبا یہ ہے کہ ایک شہر ہے ،جس کے باشندے ایک ایک کرکے اندھے ہوجاتے ہیں۔جو شخص کسی اندھے کو دیکھتا ہے،وہ خود بھی اندھا ہوجاتا ہے۔اور اندھا پن ایسا ہے کہ اس میں آنکھوں کے سامنے تاریکی یا اندھیرا پھیلنے کے بجائے ایک دبیز سفیدی چھا جاتی ہے اور انسان بینائی سے محروم ہوجاتا ہے۔
اندھے لوگ پھر کیا کرتے ہیں،کس طرح دن کاٹتے ہیں،آپس میں کس طرح معاملہ بندی کرتے ہیں،اُن کی انفرادی زندگی کیا بن جاتی ہے،نفسیاتی رویے کیا قرار پاتے ہیں،اجتماعی زندگی کس طرح مرتب ہوتی ہے۔یہ سب کچھ ناول کے پلاٹ کا حصہ ہے۔اور پھر یہ علامتی ناول ہے لہٰذا اس میں بیان کردہ صورت حال،کردار،رویے سب علامت ہیں کسی نہ کسی چیز کی۔آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ وبا کے اس پلاٹ سے حوزے ساراماگو نے کہنا کیا چاہا ہے؟
آغاز میں ایک ٹریفک سگنل پر ایک گاڑ ی باوجود سگنل کھل جانے کے حرکت نہیں کرتی۔کچھ دیر میں جب آس پاس ٹریفک رکنے لگتا ہے تو لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔پتہ چلتا ہے کہ گاڑی سوار اندھا ہوچکا ہے۔ایک شخص نے اُس اندھے کو اس کے گھر پہنچایا۔اُس نے اندھے شخص کی گاڑی چوری کرلی مگر پھر خود اندھا ہوگیا۔پہلے اندھے آدمی کی بیوی اُس کو آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔
پہلے اندھے آدمی کی بیوی گھر میں رورہی تھی،آنکھوں کی طرف رومال لگایا تو وہ اندھی ہوچکی تھی۔ادھر ڈاکٹر جب کلینک سے گھر آیا۔ وہ رات گئے امراض چشم کے بارے میں کتابیں دیکھ رہا تھا تاکہ جان سکے کہ سفید اندھا پن کیا ہوسکتا ہے۔مگر کتابوں کی ورق گردانی کے دوران وہ خود بینائی سے محروم ہوگیا۔ڈاکٹر کی بیوی ناول کا واحد کردار تھی جو اندھی نہیں ہوئی۔ورنہ کلینک میں کام کرنے والی لڑکی،وہاں علاج کرانے کے لیے آنے والے مریض،فارمیسی اسسٹنٹ، ایک ایک کرکے سب اندھے ہورہے تھے۔
جب یہ خطرناک وبا پھیلنے لگی تو حکومت نے متاثرین کو قرنطینہ کرنے کی غرض سے ان کوپاگل خانے کی ایک خالی عمارت میں بند کرنا شروع کردیا۔وہاں سارجنٹوں کا پہرہ تھاجو متاثرین سے دور تھے تاکہ اُن کی اندھوں پر نظر نہ پڑے۔پہلے، اندھوں کی تعداد آٹھ دس تھی،لیکن بڑھتے بڑھتے یہ تعداد تین چار سو تک پہنچ گئی، عمارت کے کئی وارڈ ان سے بھر گئے، اندھوں کے لیے کھانے کے پیکٹ آتے اور ایک مخصوص جگہ پر رکھ دیے جاتے۔ اندھوں کے لیے ہدایت تھی کہ وہ خود کھانے کے پیکٹ اٹھائیں،کھائیں اور بچے کھچے کھانے اور خالی ڈبوں کو ٹھکانے لگائیں۔
شروع میں بیشتر اندھوں کو وارڈوں کے اندر پلنگ دستیاب تھے مگر جب ان کی تعداد بڑھ گئی تو بہت سوں کو زمین پر گزارا کرنا پڑا۔جلد ہی وارڈ غلاظتوں سے اٹ گئے۔بیت الخلاء کہاں ہیں،یہ اندھوں کو خود تلاش کرنا تھا۔صفائی ستھرائی کے لیے پانی ناپید تھا۔بہت سے اندھے بیت الخلاء تک پہنچنے سے قبل اپنا لباس خراب کرچکے ہوتے تھے۔فرش پر جابجا فضلہ پھیلتا جارہا تھا۔وارڈ بدبو سے سڑرہے تھے۔ایسے میں اگر کوئی مرجاتا تو اس کی میت کو وارڈ سے ملحق جگہ پر دفنانا بھی محبوس اندھوں کی ذمہ داری تھی۔ایک آدھ اندھے نے انہی حالات میںوارڈ ہی میں اپنی جنسی آسودگی کا بھی انتظام کرلیا۔
انتہائی شرمناک صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک وارڈ کے اندھوں نے طاقت کے زور پر دوسرے وارڈ کے کچھ اندھوں پر حکمرانی قائم کرنے کا آغاز کیا۔وہ کھانے کے ڈبے اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور دوسرے وارڈ کے اندھوں سے اُن کے پاس موجود اشیاء کا مطالبہ کرتے۔ یہ قیمت جو ادا کرتا اس کو کھانے کا ڈبہ مل جاتا۔ مگر غنڈہ گردی کی انتہا اُس وقت ہوئی جب ان اندھوں نے دوسرے وارڈ والوں سے عورتوں کا مطالبہ کردیا۔دوسرے وارڈ کے مرد اور عورتیں ظاہر ہے کہ اس مطالبے کو کیسے مان سکتے تھے مگر جب معاملہ بھوک کی شدت کا ہوا تو اس ناروا مطالبے کے آگے بھی ہتھیار ڈالنے پڑے۔تب غنڈہ عناصر کے وارڈ میں بے شرمی اور سفلہ پن کے انتہائی افسوسناک واقعات پیش آئے۔ڈاکٹر کی بیوی جو شوہر کے ساتھ ہی اُس کے وارڈ میں رہ رہی تھی اور ابتداًء صرف ڈاکٹر کو پتہ تھا کہ وہ اندھی نہیں ہے،ان سب واقعات کو دیکھ رہی تھی۔
وہ خود بھی اُن عورتوں میں شامل تھی جو غنڈوں کی شہوانی خواہشات کا شکار بنی تھیں۔وہ گھر سے چلتے وقت اپنے پرس میں ایک قینچی رکھ لائی تھی کہ اُس کو اپنے شوہر کے بال تراشنے ہوئے تو وہ اس کے کام آسکے۔اس قینچی سے اس نے غنڈوں کے لیڈر پر حملہ کیا اور اس کو ہلاک کردیا ۔بعد ازاں متاثرین نے کوشش کرکے اپنی مدافعت کا منصوبہ بنایا۔وہ ایک ساتھ غنڈوں کے وارڈ پر حملہ آور ہوئے۔ایک ماچس ان کے ہاتھ آگئی اور اس سے انہوں نے وارڈمیں آگ لگادی۔آناً فاناً آگ پوری عمارت میں پھیل گئی اور یوں زندہ بچ جانے والے اندھے باہر آگئے جہاں سارا شہر اندھا ہوچکا تھا۔
وارڈ میں داخل ہونے والے ابتدائی چھہ سات اندھے ایک گروپ کی شکل میں ڈاکٹر کی بیوی کی رہنمائی میں شہر میں مارے مارے پھرتے رہے۔کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرتے رہے۔ دو ایک ڈاکٹر کی بیوی کے تعاون سے اپنے گھروں تک پہنچنے میں کامیاب رہے مگر انہوں نے گروپ کی شکل میں رہنا مناسب سمجھا۔کچھ اندھوں کے گھروں میں شہر کے دوسرے اندھے براجمان ہوچکے تھے ۔شہر کی سڑکیں،گلیاں،بازار سب بدبو اور سڑاند سے آلودہ ہوچکے تھے۔ایسے میں وقتاً فوقتاً ہونے والی بوندا باندی غلاظت کو اور پھیلا دیتی۔
البتہ زیادہ تیز بارش لوگوں کو اپنے جسم اور کپڑوں پر جمی ہوئی غلاظت سے نجات حاصل کرنے میں مدد دے دیتی۔جن اندھوں کو گھروں تک رسائی حاصل ہوسکی انہیں وہاں سے صاف کپڑے بھی دستیاب ہوگئے۔اور پھر ناول کے اواخر میں اچانک ایک ایک کرکے اندھوں کی بینائی واپس آتی چلی گئی۔وبا کا اثر ٹوٹنے لگا۔سڑکوں پر لوگ نعرہ زن تھے۔ہم دیکھ سکتے ہیں۔لوگ معمول کی زندگی شروع کرنے کے سرے پر کھڑے تھے۔
حوزے سارا ماگو نے ناول میں کیا دکھانا چاہا ہے؟ یہ ایک انتہائی غیر معمولی علامتی ناول ہے۔ناول میں جبر کا شکار معاشروں پر قائم آمرانہ تحکم اور ان معاشروں کی داخلی نفسیاتی کیفیات کو بے نقاب کیا گیا ہے۔یہی نہیں بلکہ اس میں اندھے پن کو مختلف رویوں کی علامت کے طور پر بھی برتا گیا ہے۔حوزے سارا ماگو نے اپنی زندگی کا تقریباً نصف پرتگال کے فاشسٹ ڈکٹیٹر اولیویراسالازار کے دور (۱۹۲۸ تا ۱۹۷۴) میں گزارا۔سالازار پرتگال میں اُس نوع کی آمریت کا بانی تھا جو جرمنی میں ہٹلر اور اٹلی میں مسولینی نے قائم کی تھی۔جرمنی میں ہٹلرنے معتوبین کے لیے کنسنٹریشن کیمپ بنائے تھے۔
حوزے سارا ماگو نے دکھایا ہے کہ سالازار کا پرتگال بجائے خود ایک کنسنٹریشن کیمپ تھا۔پاگل خانے کی عمارت جس میں ابتداً تین چار سو اندھے رکھے گئے،ہٹلر کے کنسنٹریشن کیمپ سے بہت مماثل تھی۔اس قرنطینہ میں حکم عدولی کی سزا فوجی سارجنٹوں اور سپاہیوں کی گولیوں کی صورت میں ملتی تھی۔مجبور اندھے ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ کسی سمت میں اٹھایا ہوا ان کا قدم کہیں طے شدہ حدود سے باہر نہ نکل جائے اور وہ گولی کا نشانہ نہ بنا دیے جائیں۔
اندھوں کے قرنطینہ کے ذریعے حوزے ساراماگونے محبوس معاشروں کی نفسیات کی جھلکیاں دکھائی ہیں ۔جن معاشروں میں فرد کی آزادیٔ فکرو عمل چھین لی جائے،وہ معاشرے رفتہ رفتہ خوئے تخلیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔وہ بصارت اور بصیرت سے محروم ایسے اندھے معاشرے بن جاتے ہیں جہاں لوگوں کی حیثیت ریوڑ سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔اس ریوڑ کی جسمانی ضروریات ہی باقی بچ جاتی ہیں۔اس کی دیگر انسانی صفات ختم ہوجاتی ہیں۔
ہمدردی،دلجوئی، شراکت کا احساس،یہ سب اوصاف انفرادی سطح پر بچ رہیں تو رہیں،اجتماعی سطح پر ختم ہوجاتے ہیں۔’اندھے لوگ‘ میں ہمیں انفرادی ہمدردی کی مثالیں ملتی ہیں مگر قرنطینہ میں مجموعی ماحول غیر انسانی ماحول ہی کاہے۔
جبر کے سائے میں پروان چڑھنے والے معاشرے واماندگی کا شکار ہوکر پژ مردہ اور بے حس بن جاتے ہیں۔تب ان میں بےترتیبی کی بساند جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔معتوبوں کے اس معاشرے میں کچھ لوگ طاقتور بن جاتے ہیں،اسلحے یا جسمانی طاقت کی بنیاد پر۔ہوتے وہ بھی معتوب ہی ہیں مگر وہ دوسرے معتوبوں سے من پسند کام کرواتے ہیں۔یہاں تک کہ اُن کا جسمانی استحصال بھی کرتے ہیں۔’اندھے لوگ‘ کے بدمعاش اندھے،دوسرے وارڈ کے اندھوں پر اسی طرح کی حکمرانی کررہے تھے۔کیا درست ہے اور کیا نادرست؟محبوس معاشرے اپنی الگ اخلاقیات بنالیتے ہیں۔یہاں بہر طور طاقت واحد ذریعۂ حکمرانی قرار پاتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ظلم اور جبر کے زیر تسلط معاشروں کا مقدر یہی ہے کہ وہ انسانی شرف اور وقار سے محرومی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبول کرلیں؟حوزے سارا ماگو ہرگز ایسا نہیں سمجھتا ۔اُس نے خود بھی اپنے ملک کے فاشسٹ حکمرانوں کی غیر قانونی حکومت کو کبھی قبول نہیں کیا۔وہ ہمیشہ جمہوریت پسندوں اورآزادی خواہوں کا ہمنوا رہا۔اپنے ناول میں بھی اُس نے اندھوں کے قرنطینہ میں ہونے والی غیر انسانی حرکتوں کے خلاف اندھوں ہی سے بغاوت کروائی اور قرنطینہ کی عمارت کو آگ لگاتے ہوئے دکھایا۔ایسا کرتے وقت وہ اس بدیہی حقیقت ہی کا اظہار کررہا تھا کہ ذلّت اور جبر کو انسان نے کبھی بھی اپنا مقدر تسلیم نہیں کیا۔ انسان جلد یا بدیر اپنی آزادی کا راستہ تلاش کرلیتا ہے۔
ناول کے اختتام پر جب اندھے پن کا سفید عفریت اپنا کام دکھا کر چلا جاتا ہے تو حوزے سارا ماگو ایک کردار کی زبان سے ایک اہم جملہ کہلواتا ہے’’ساری حالتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں کبھی یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ایسی کوئی چیز نہیں جسے اندھا پن کہا جاسکے صرف اندھے لوگ ہوتے ہیں لیکن وقت اور تجربے نے ہمیں سکھایا ہے کہ یہاں اندھے لوگ نہیں ہیں صرف اندھا پن ہے‘‘۔بے بصارتی افراد سے بڑھ کر معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو اندھا پن اجتماعی فطرت بن جاتا ہے، اور پھر حوزے سارا ماگو بالکل آخر میں ایک اور اہم بات کہہ کر قارئین کو اِدھر اُدھر دیکھنے اور کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
وہ ایک کردار سے کہلواتا ہے_’’میرا نہیں خیال کہ ہم اندھے ہوئے تھے میرا خیال ہے کہ ہم اندھے ہیں،اندھے لیکن دیکھنے والے، اندھے لوگ جو دیکھ سکتے ہیں لیکن نہیں دیکھتے‘‘۔ناول کے پڑھنے والوں سے یہی پوچھا گیا ہے۔کیا ہم کبھی ماضی میں اندھے تھے یا اب بھی اندھے ہیں۔کوئی کہے گا کہ ہم تو دیکھ سکتے ہیں۔ ناول نگار پھر پوچھتا ہے۔دیکھنے والے بھی اندھے ہوسکتے ہیں۔وہ دیکھ سکتے ہیں مگر نہیں دیکھتے ۔ہم بھی کیا وہی نہیں ہیں؟