بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔ جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: ’’میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا‘‘۔تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی۔نو روپئے جاچکے تھے۔یوں نو روپئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہواُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔کچھ دن گزرے ۔۔۔ ماں کا خط ملا۔پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔
ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا!ماں نے لکھا تھا: "بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا۔تو کتنا اچھا ہے رے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا"۔میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ۔بڑی مشکل سے پڑھ سکا: ’’بھائی نو روپئے تمھارے، اور اکتالیس روپئے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟‘‘
تمھارا جیب کترا …… (گیان پرکاش وویک کا ایک مختصر افسانہ)