رفیع الدین، ریسرچ اسکالر
ادب کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سماج کا آئینہ ہے، لیکن حقیقت کچھ اس کے بر عکس ہے ،وہی ادب معیاری اور لازاول سمجھا جاتا ہے جو موجودہ معاشرے کا سچا عکس پیش کرتاہے ۔ ادب اس تخلیق کو کہیں گے، جس میں سچائی کا اظہار ہو جس کی زبان میں پختگی ہو ‘ کیفیت ‘ادا ‘حسن ہو اور جس میں دل و دماغ کو متاثر کرنے کی صلاحیت ہو جوپوری طرح اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربات سموئے گئے ہوں۔
ادیب اچھا ئی ا ور برائی کا تجزیہ کرنے والا ناقدہی نہیں بلکہ وہ اصول و ضوابط کا فن کا ربھی ہوتا ہے۔ پریم چند نے ادب اور سیاست کے رشتے کے تعلق سے یہ کہا تھا کہ ادب سیاست کے آگے چلنے والی مشعل ہے لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔آج کے تخلیق کاروں نے ادب کو دماغ کی شے بنا لیا ہے جبکہ ادب دل کی شۓ ہے ۔بہتر ین ادب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زبان فصیح و بلیغ اور خوبصورت ہو ۔اور جس میں دل و دماغ دونوں کو متاثرکرنے کی قوت ہو۔ ادب میں یہ خوبی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب مصنف کو زبان پر عبورحاصل ہو، ادب کے اصول و ضوابط سے واقفیت ہو اور ادب میں زندگی کی سچائیوں اور محسو سات کو برتا گیا ہو ۔اگر عکس ،آئینہ،اور سچائی کا موازنہ کیا جائے تو عکس آئینے کی بہ نسبت سچائی کے زیادہ قریب تر نظر آئے گا ۔
آئینہ سچا ہے یا جھوٹا یہ کہناذرا مشکل ہے لیکن عکس تو انسان کی خود کی تصویر ہوتاہے ۔ آج بھی بہت سے ایسے ادباء اور شعرا ءہیں، جن کی تخلیقات میں اپنے عہد کی تہذیب وثقافت کا عکس پوشیدہ ہے۔ شاعری ہو یا فکشن دونوںمیں اپنے عہد کی بولتی ہوئی تصویریں نظر آتی ہیں۔لیکن شاعری کی بہ نسبت فکشن میں وسعت بیان کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے ۔کیوں کہ شاعری میں ردیف و قافیہ کی پابندیاںفن کارکو طوالت بیان کر نے سے روکتی ہیں۔
اس کے باو جود مثنوی میں اپنے عہدکی تہذہبی اور سماجی زندگی کی عکاسی کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے ۔تمام مثنوی نگاروں نے اپنی مثنویوںکے ذریعے زندگی کے مختلف پہلوئوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہیں اوراپنے عہد کی روح کو قید کیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ مثنوی میںثقافتی اور سماجی زندگی کے لا زوال مرقعے محفوظ ہیں۔ اس کی بہترین مثال مثنوی سحرالبیان ہے۔ جس میں میر حسن نے سحرالبیان کے قصے کو بیان کرنے میںاودھ کی تہذیب کا پورانقشہ ہی پیش کر دیا ہے، اس کے علاوہ مثنوی بھی جیسے گلزار نسیم ،زہر عشق وغیرہ اپنے عہد کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی بہترین عکاس ہیں ۔
داستانوں کے بارے میں یہ کہا جا تا ہے کہ کسی ایک داستان کے مطالعے سے اس عہد کی تہذیب و تمدن کی واضح تصویر بنائی جا سکتی ہےاس طرح کی داستانوں میں ــــــــ’’داستان امیر حمزہ‘‘ ،’’بوستان خیال‘‘ ’’باغ وبہار‘‘ ’’فسا نۂ عجائب‘‘ اور ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔یہ سب ہی داستانیں اپنے عہد کی بہترین تصویریں پیش کرتی ہیں۔’’داستان امیر حمزہ ‘‘ کے بارے میںمحققین کا یہ خیال ہے کہ اگر اس میں سے ساحری اور عیاری کو نکال دیا جائے تو جو باقی بچے گا وہ صرف لکھنوی تہذیب کا عکس ہو گا۔ ’’باغ و بہار‘‘ بھی فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی ایک مشہور داستان ہے ،جسے میر امن دہلوی نے 1802لکھا ۔چونکہ میر امن دہلی کے رہنے والے تھے اس لیے انھو ںنے مغلیہ سلطنت کی شان و شوکت جاہ و جلال اور زوال کو بھی دیکھا اور اپنےتجربات و مشاہدات کو’’ باغ و بہار‘‘ میں سمو دیا ہے۔اس داستان میں میر امن دنیا کے کسی بھی ملک کا ذکرکرتے ہیں لیکن وہ دہلی کی تہذیب ،رسم و رواج ،رہن سہن،سیر تماشے،تقریبات،ضیافتیں،رسوم و عقائد اور آداب و مراسم کو نہیں بھول پاتے ہیں۔
غرض کہ وہ شعوری یا لا شعوری طور پر دہلی کی جیتی جاگتی زندگی کا عکس پیش کر دیتے ہیں ۔’’باغ و بہار‘‘ کے جواب میں لکھی گئی اودھ کی مشہور داستان ’’فسانہ عجائب‘‘ہے جسے رجب علی بیگ سرورْ نےپنی جلا وطنی کے دوران کانپور میں لکھا جو پہلی مرتبہ 1843 میںشاائع ہوئی۔ ’’فسانہء عجائب‘‘ میں سرور (1786-1869) نے لکھنؤ کی جیتی جاگتی تصویرکو بڑی خوب صورتی سے پیش کیا ہے ۔پورے قصے میں سرور کی لکھنؤ سے وابستگی صاف طور پر نظر آتی ہے، اگرچہ یہ قصہ کانپور کے دوران قیام لکھا گیا ۔پرو فیسر ابن کنول فسانۂ عجائب کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’فسانہء عجائب میں ابتدا سے آخرتک لکھنوی تہذیب کی جھلکیاںنظر آتی ہیں۔شاہی درباروںاور حرم سرائوںکی شان و شوکت اور ناز و نعم سے لےکر رسم و رواج تک سب کچھ اس قصے میں سما گیا ہے ۔لکھنؤکی جو تہذیب میر حسن کی مثنوی ’’سحر ا لبیان‘‘میں دکھائی دیتی ہے، اس کی واضح شکل فسانۂ عجائب میں موجود ہے ۔‘‘
فطرت ِانسانی کا ماہر ادیب شہزادوں کے حسن و عشق اور طلسماتی حکائتوں میں بھی زندگی کی حقیقتوں کو بیان کر سکتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ ان تمام باتوں کے باو جود بھی داستانیں اور مثنویاں اگر آج زندہ ہیں اور جدید افسانوی ادب پر چھائی ہوئی ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں ہماری گذشتہ تہذیبی اور معاشرتی زندگی کے روایتی عناصرکے عکس موجود ہیں ۔ یہ داستانیں محض شہزادوں اور شہزادیوں کی داستان عشق ہی نہیں بلکہ انیسویںصدی کے رہن سہن ، رسم و رواج اور طرز معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریںبھی ہیں۔ ناول ،ڈراما اور افسانے اگر چہ داستانوں اور مثنویوں سے قدر مختلف اور مختصر ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ سماج کی حقیقی زندگی کو بیان کرنے اور اس کا عکس پیش کرنے سے مستثنیٰ ہیں۔
ان میں بھی اپنے عہد کی بولتی ہوئی تصویریں صاف نظرآتی ہیں ۔ اردو ادب میں ایسے بہت سے ناول ،افسانے اور ڈرامےہیں ،جن میں معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔مثلاً مرزا ہادی رسوا ؔکا مشہور ناول ’’امراوجان ادا‘‘میں رسوا ؔنے لکھنو کے زوال آمادہ معاشرے کا عکس اور اس عہد کے لکھنو ٔکی کھوکھلی تہذیب ،اخلاقی گراوٹ ،انسانی رشتوں کی بے حرمتی ،عورتوں کی نا قدری اور تضحیک و تمسخر کی جھلک کوبہترین انداز میں پیش کیا ہے ۔
ادیب یا شاعراپنے جذبات کی ہی نہیں بلکہ اپنے معاشرے کی تر جمانی بھی کر تاہے ۔ میر تقی میر ؔنے دہلی کی تباہی وبربادی کو اپنی آنکھوںسے دیکھا تھا، جس کا خوبصورت عکس ان کی شاعری با لخصوص ان کی غزلوں میںنظرآتا ہے۔لیکن غزل کے اشعار کو پڑھنے سے پہلے تاریخ کی معلومات بھی ضرورہونی چاہئے کیوں کہ غزل رمز و ایماں کی شاعری ہے، اس میں دو مصرعے میں ہی ساری باتیں کہہ دی جا تی ہیں مثلاََ
دیدہ ٔ گریا ں ہمارا نہر ہے دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے (میرؔ)
دنیا نے تجربات و حوا دث کی شکل میں جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لو ٹا رہا ہوں میں (ساحرؔ)
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا ،کا غذی ہے پیر ہن ہر پیکرِ تصویر کا (غا لبؔ)
معاشرے کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے منفرد اورمشترک خد وخال کو دیکھنے اور سمجھنے میں ہمیں سب سے زیادہ سہولت اور مدد اس عہد کے فن پاروںسے ہی ملتی ہے ،اسی لیے دنیا کی تمام تاریخیں خواہ تہذیبی ہوں یا سماجی ادب کے ذریعے ہی تر تیب دی جاتی ہیں،اگر صحیح معنوں میں کہا جائے تو سماج آئینہ ہے اور ادب اس سماج کا عکس، کیوںکہ جس طرح آئینے میں ہر کسی کا منفرد عکس بنتا ہے ۔ اسی طرح سماج میں رہتے ہوئے انسان اپنی اچھی اور بری جبلتوں کی بنیاد پر اپنا ایک عکس یا امیج قائم کرتا ہے۔
اسی امیج سے متاثرہو کر تخلیق کارکسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے ۔کوئی بھی ادیب یا انسان سماج میں پیدا ہوتا ہے ،ادب میں نہیں۔سماج میں ہی وہ پلتا ، بڑھتا اورجوان اور بوڑھا بھی ہوتا ہے اور زندگی کی آخری سانس بھی اسی سماج میں لیتا ہے ۔یہ سماج کا ایک لازمی عنصر ہوتا ہے اس کے بغیر نہ سماج کا تصور ممکن ہے اور نہ ہی سماج کے بغیر انسان کی کوئی اہمیت ہے۔ یعنی دونوںایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔