محمد عبدالعزیز سہیل
اس جنگ آزادی میں اردو ادب کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔شاعروں ،ادیبوں،صحافیوں نے اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر وطن کی آزادی کے لئے آواز بلند کی اور عوام کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
جدوجہد آزادی میں اردو ادب نے آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں کرداراداکیا ہے ۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ایک طویل نظم ’’حب وطن‘‘ کے عنوان سے لکھی۔سرسید احمدخاں کی رہنمائی میں سماجی اصلاح کی عظیم الشان تحریک کا آغاز ہوا۔ علامہ اقبال نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر ایک نظم’’ ترانہ ہندوستان‘‘ لکھی تھی۔ انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا ان کی نظمیں ’’صدائے اردو‘‘1902ء ’’تصویر درد‘‘ 1904ء میں آزادی کا جذبہ پید اکیا۔
شاعروں نے اور بھی زیادہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ ظفر علی خاں اور جوش کی شاعری نے، جس طرح انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی اس کی مثال شاید ہی کسی اور زبان کی شاعری میں ملے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زندگی ان کی ہے دین ان کا ہے ، دنیا ان کی ہے
جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہوگئیں
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی۔۔۔واللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے (حسرت موہانی)
مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافت اور اپنی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں میں آزادی کا شعور بیدار کیا اور انہیں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی ترغیب دی۔ مسلمانوں کو بتایاکہ صداقت کے لئے جہاد اور انسانوں کو انسانی غلامی سے نجات دلانا تو اسلام کا قدرتی مشن ہے۔
اردو زبان و ادب نے آزادی کے لئے ماحول کو سازگار کیا اور اردو زبان نے ہی آزادی کے متوالوں کے دلوں میں احساس اورجذبہ بیدار کیا ، ساتھ ہی ہندوستانیوں کے دلوں میں سرفروشی ، جاں بازی اور حب الوطنی کے شعلوں کو اس طرح منور کیا کہ حصول آزادی تک ان کے جوش و جذبہ میں کبھی کمی نہ آئی۔
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
1903ء میں مولانا حسرت موہانی نے اردو معلیٰ شروع کیا ،جس کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف ولولہ انگیز مضامین شائع ہوئے، جس سے انگریزی سرکار کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے انہیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی اور انہوں نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی الہلال اور البلاغ کے ذریعہ تحریک آزاد ی کے لئے ہندوستانی عوام میں جذبہ بیدار کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا کی۔ عوامی شعور بیدار کیا۔
اردو ادب نے قومی یکجہتی کو برقرار رکھا۔ نثرنگاروں اور ادیبوں کا اردو زبان کی ترقی دینے اور پروان چڑھنے میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔
شاعروں اور ادیبوں کی پرجوش تحریروں نے مسلمانوں کے ذہنوں کو یکسر بدل ڈالا۔ سرسید احمد خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، نظیر اکبر آبادی یہ تمام انیسویں صدی کے جانباز ہیں۔