۱۹۴۷ء میں سلطنتِ برطانیہ کی غلامی سے آزادی، ہندوستان کی تقسیم اورپاکستان کا معرضِ وجود میں آنا غیر معمولی اہمیت کے حامل تاریخی واقعات تھے۔قوموں اور ملکوں کا غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے اتارنا محض سیاسی نوعیت کا واقعہ نہیں ہوتا۔تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ غلامی سے نجات اپنی اساس میں ایک ایسا تہذیبی وقوعہ ہوتی ہے جس کے جملہ پہلوئوں کے ادراک کے بغیر اس کی سیاسی اہمیت کو بھی مناسب طور پر نہیں سمجھا جاسکتا۔
اسی بات کا یہ مطلب بھی ہے کہ آزادی اگر محض سیاسی تبدیلیوں اور غیر ملکی حکمرانوں کی جگہ اپنی قوم اور نسل کے حکمرانوں کے اقتدار میں آجانے تک محدود رہے اور سماجی نظام، ثقافت اور معاشرتی اقدار عہدِ غلامی سے اپنا رشتہ نہ توڑیں یا دوسرے لفظوں میں استعماریت شکنی (Decolonization) میں کامیابی حاصل نہ کی جائے تو آزادی محض دکھاوے کی چیز بن کر رہ جاتی ہے، اور اس کے مقاصد قوم کے حسبِ منشا نہیں نکلتے۔
پاکستان کا قیام بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کی آزادی کی طرح بے کراں چیلنجوں کی ہمرکابی میں عمل میں آیا۔یہی نہیں بلکہ پاکستان کی آزادی ایک اور اہم اور با معنی حوالے سے دوسرے ملکوں کی آزادی سے مختلف تھی، اور یوں اس کو درپیش چیلنج بھی دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل تھا۔دنیا کے وہ دیگر ممالک جنہیں غلامی کا تجربہ ہوا ،ان میں سے کم و بیش سب ہی نوآبادیات بننے سے قبل اپنا ایک ملک ہونے کا تشخص رکھتے تھے ۔استعمار کے شکنجے میں آنے کے بعد انہوںنے آزادی کے لیے جو جدوجہد کی وہ دراصل اپنے کھوئے ہوئے وجود اور تشخص کی بازیافت کی جدوجہد تھی۔آزادی سے ہمکنار ہونے کے بعد انہوں نے کہیں نسبتاً آسانی سے اور کہیں مشکلات کی ہم رکابی میں اپنے وجود کے احیاء کو ممکن بنایا۔ان ملکوں کے علی الرغم پاکستان ۱۹۴۷ء سے قبل اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔
پاکستان میں شامل علاقے برصغیر کا حصہ تھے جس پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ایک سوسال کی مدت میں اپنا قبضہ مکمل کیاتھا۔برصغیر پر سے انگریزی تسلط کا خاتمہ جس وقت ہوا اُس سے قبل ہندوستان میں ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کا ایک اتنا بڑاسیاسی تضاد ابھر کر سامنے آچکا تھا جس کو حل کرنے کے لیے افہام و تفہیم کی جملہ کوششوں کی ناکامی کے بعد بالآخر تقسیم ہند ہی کا راستہ اختیار کیا گیا۔پاکستان جن خطوں پر مشتمل تھا یہ غیر معمولی قدامت کے حامل تھے۔وجود میں آنے والا نیا ملک ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ریوپرٹ ایمرسن(Rupert Emerson)کے الفاظ میں ـ ’’پرانے معاشرے میں ایک نئی ریاست ‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔اپنے قیا م کے وقت پاکستان کے لیے اصل چیلنج تو یہ تھا کہ وہ کس طرح اپنے قدیم معاشروں کی اساس پر ایک جدید ریاست اور اس کی شناخت قائم کرے۔لیکن قبل اس کے کہ اس بڑے اور اہم کام کا آغاز ہوتا ،قیام پاکستان ، تقسیم ہند کے غیر معمولی اثرات کی زد میں آگیا اور پھر برسہا برس وہ ان اثرات سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔
تقسیمِ ہند اور تشکیلِ پاکستان کے حوالے سے ہمارے ادب میں چار طرح کے رجحانات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔پہلا، آزادی سے قبل استعمار کی غلامی کے خلاف مزاحمت اورآزادی کے شعور کا رویہ۔ دوم، تقسیم ِہند کے وقت ہونے والے فسادات پر ادیبوں کی تخلیقات جن میں انسان دشمنی اور انسان نوازی کی کشمکش کو اجاگر کیا گیا، سوم، آزادی کے فوراً بعد کا یہ رویّہ اور احساس کہ آزادی سے قبل کے آدرشوں کو کس قدر جلدی بھلا دیا گیا، اور عوام پر چند افراد اور اداروں نے بالادستی حاصل کر کے ان کے جملہ حقوق سلب کرلیے۔ ٓاور چہارم، یادِ ماضی اور نوسٹیلجیا کا رویہ جس کے تحت ادیبوں نے ماضی کو یاد کرنے اور اپنی تہذیبی جڑوں کو از سرِ نو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ یہاںہم ان چاروں رویوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔ گو یہ رویے ہماری سب ہی زبانوں کے ادب میںدیکھے جا سکتے ہیں تاہم ہماری کاوش صرف اردو ادب کے مختصر سے جائزے تک محدود رہے گی۔
قیام پاکستان سے قبل آزادی کا موضوع ہمارے ادب کا سرکردہ موضوع تھا۔استعمار کے پورے دور میں ہمارے ادیبوں اور تخلیق کاروں نے اپنے اپنے انداز سے آزادی کو موضوعِ گفتگو بنایا۔ غلامی کے انسانیت سوز پہلوئوں اور آزادی کی حیات آفرینی کا بڑا وقیع اظہار شاعری اور نثر دونوں میں ہوا۔بہت سے ادیبوں کو اپنی آزادی خواہی کی سزا سخت ابتلاء او ر آزمائشوں کی شکل میں بھی ملی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اردو ادب اور صحافت میں انگریزی استبداد کے حوالے اور مقامی ردِ عمل نے جگہ پانی شروع کر دی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ ٔ دارو گیر کے پس منظر میں غالب نے کہا تھا ؎
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرہ دیدہ ہائے گریاں کا
محمد حسین آزاد ،الطاف حسین حالی ،مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی،شبلی نعمانی ، سُرور جہان آبادی سب نے اپنے اپنے انداز میں بیرونی تسلط کی مذمت اور آزادی کی نغمہ خوانی کی لیکن آزادی کے موضوع نے جس طرح اقبال کی شاعری میںفلسفیانہ گہرائی اور تاریخ کے شعور کے ساتھ جگہ پائی اس نے نہ صرف ان کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا اُردو شاعر قراردلوایا بلکہ ان کے اشعار براہ راست لوگوں کے ذہن اور رویّے تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔اقبال نے آغاز اس احساس کے ساتھ کیا تھاکہ جہاں میں ہمارا کوئی محرم نہیںجو ہمارے دردِ نہاں کو سمجھ سکے ۔لیکن پھرآزادی کا مضمون ان کے یہاں مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتا رہا۔ تب انہوں نے اس موضوع کو اپنی ثقافت کے جملہ ابعاداور خاص طور سے مذہبی تاریخ کے حوالوں کے ساتھ آمیز کرکے اس فکر کو آگے بڑھایا کہ غلامی فرد کے احساس ِ خودی اور معاشرے کی اجتماعی قوتِ فکر و عمل کو داغدار کر دیتی ہے۔اقبال کے خیال میں سیاست اور ثقافت کی روح کو آزاد کرائے بغیر محض عبادتوں کی آزادی کوئی قابل افتخار چیز نہیں ہے۔ وہ غلام کی نماز کو مردِ آزاد کی نماز سے مختلف عمل قرار دیتے ہیں ؎
طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے
درائے سجدہ غریبوں کو اور ہے کیا کام!
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیام!
اقبال کے علاوہ بیسویں صدی ہی میں ظفر علی خان، چکبست،حسرت موہانی ،اور جوش ملیح آبادی نے بیرونی تسلط کی مذمت میںاپنی پر زور ٓوازبلند کی۔ ان کے لہجے میں بغاوت کے رنگ بھی تھے اور انقلاب کے مضبوط سندیسے بھی ۔جوش کی نظم ’شکستِ زنداں کا خواب‘ باغیانہ سرشت کا بے مثال نمونہ ثابت ہوئی ؎
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے،گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
سنبھلو، کہ وہ زنداں گونج اٹھا،
جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اُٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں ، دوڑو کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں
1939 میں دوسری عالمی جنگ کے چھڑنے پر جب سلطنتِ برطانیہ نے جرمنی اور اٹلی سے اٹھتے ہوئے فاشزم کے طوفان کے مقابل جمہوریت کی دہائی دی اور ہندوستان کو جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا تو جوش نے ’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب ‘ کے ذریعے برطانیہ کو اُس کی وہ استعماری چیرہ دستیاں یاد دلائیں جن کے ذریعے اس نے ہندوستان کی معیشت اور سیاست پرغلبہ حاصل کیا تھا۔ جوش نے باور کرایا ؎
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
اور جوش کا یہ شعر تو ہر عہد اور ہر قوم کے لیے ایک پیغامِ ابدی کی حیثیت رکھتا ہے ؎
سنو اے بستگانِ زلف ِگیتی،
ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر،
غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
غلامی سے نفرت اور آزادی کی ولولہ انگیزی کو اس بلند آہنگ کے ساتھ کس نے پہلے پیش کیا تھا؟
بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں جب ہندوستان میں ترقی پسند ادب کا غلغلہ بلند ہوا تو پھر تو کم وبیش ہر شاعر کا کلام آزادی کے پیغام سے مزیّن نظر آنے لگا۔چنانچہ فیض نے کہا ؎
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ پھر بھی ہم جیے جاتے ہیں
مخدوم محی الدین پکار اٹھے ؎
خود اپنی زندگی پہ پشیماں ہے زندگی
قربان گاہِ موت پہ رقصاں ہے زندگی
انسان رہ سکے کوئی ایسا جہاں بھی ہے
اس فتنہ زا زمیں کا کوئی پاسباں بھی ہے
او آفتابِ رحمتِ دوراں طلوع ہو
او انجمِ حمیّتِ یزداں طلوع ہو
اسرارالحق مجاز ،جان نثار اختر،علی جواد زیدی،علی سردار جعفری،ان سب کے ہاں آزادی کا موضوع انقلاب کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر سامنے آیا ۔سردار جعفری نے آزادی کا سماجی اور ثقافتی پہلو اجاگر کیا اور اس کو انسانیت کے لیے ایک صبحِ روشن سے تعبیر کیا ؎
رفعتِ عرشِ بریں سے پرفشاں ہوتی ہوں میں
صبح کے زرّیں تبسم میں عیاں ہوتی ہوں میں
(جاری ہے)