شہاب ظفر
اردو فکشن نےتقریباً ڈیڑھ صدی کا لمبا سفر طےکیا ہے۔ اِس مدت میں اس نے مزاجی اعتبار سے پانچ ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور بیسویںصدی کی ابتدا ءتک کا ہے جب فکشن ناول تک محدود تھا اور فنی وموضوعاتی سطح پر نذیر احمد کے ناولوں سے امراؤ جان ادا تک سارے تجربات اسی میں کئے جارہے تھے۔ دوسرے دور میں افسانہ منظرعام پر آیا اور اس میں اصلاح پسندی، حب الوطنی اور مثالیت پسندی کا رجحان غالب رہا۔ تیسرا دور، جس میں حقیقت نگاری، اشتراکیت اور رومان پسندی کی لہر ملتی ہے۔ چوتھے دور میں فکشن بالخصوص افسانے میں داخلی حقیقت نگاری، علامت نگاری، ابہام، پیچیدگی، انسان اور اقدار کی شکست وریخت کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ ۱۹۸۰ء کے بعد کا زمانہ مکمل طور پر نئی تلاش اور نئی بصیرت کا منظر نامہ سامنے لایا، جسے اردو فکشن کی واپسی کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے۔
اِس زمانے میں افسانہ نے غیر ضروری اور نامانوس علامتوں سے دامن چھڑا کر ایک نئے تیور کے ساتھ زندگی کا ہاتھ تھاما۔عالمی ادب میں افسانے کی پیش رفت اور اس کے تخلیقی امکانات کی توثیق سے اس کی ادبی حیثیت مسلم ہوگئی۔ اب افسانہ محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ اعلیٰ فن پاروں کی طرح زندگی، معاشرے اور کائنات کے رازہائے سربستہ کی بصیرت افروزی کا موثر وسیلہ بھی بن گیا۔ اردو افسانہ اب روبہ ترقی ہے۔
فکشن ہماری تہذیب، ہمارے جذبات اور ہمارے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل ہزاروں سال سے کررہا ہے، اس لئے پیمانوں، اصولوں اور درجہ بندی وغیرہ کے اعتراضات سے اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اِسے افسانے کا جادو ہی کہا جائے گا کہ وہ صنف، جس میں اعلیٰ درجہ کے ادب کی تخلیق ناممکن قرار دی گئی تھی بعد میں تو جہ کامرکز بن گئی ۔ آج ادبی فضا میں افسانوی ادب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور کتب ورسائل کا بڑا حصہ افسانہ اور افسانے پر گفتگو کا احاطہ کر رہا ہے۔،چنانچہ آج جہاں ایک طرف انتظارحسین اور قاضی عبد الستارکے علاوہ جیلانی بانو، بانو قدسیہ، جوگندرپال، عبدالصمد، اقبال مجید، سلام بن رزاق، حسین الحق،عبدالصمد،شموئل احمد، غضنفر اور ذوقی وغیرہ جیسے اہم اور مقبول عام فکشن نگار وں نےشب وروز افسانے کی دنیا کو وسعت بخشی۔
اردو افسانہ آج ایک نئی منزل سے ہم آغوش ہے۔ اس کی دنیا نہایت وسیع ہو چکی ہے۔مسلسل نئے افسانوی مجموعے شائع ہو رہے ہیں،جو اپنے وسیع کینوس کی وجہ سے نہ صرف قاری کو متاثر کرتے ہیں بلکہ موضوعاتی طور پر ہمیں نئی دنیا اور نئے آفاق سے روشناس کراتے ہیں۔آج کے افسانہ نگار اپنی کہانیوں میں بڑی شدت اور حقیقت کے ساتھ موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہیں۔اس لیے آج کا افسانہ پہلے کے افسانوں سے کافی حدتک مختلف ہے۔کہانی کانیا منظرنامہ نئے فلسفوں اور نئے حقائق کی تلاش میں سرگردا ں ہے۔یہ تلاش کہاں تک پہنچے گی ،ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔لیکن سچائی کے ساتھ یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ نئی کہانی سپاٹ بیانیہ کاشکار نہیں ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ جدت اور حقیقت پسندی کے امتزاج سے نئے کولاژ تعمیر ہو رہے ہیں ۔
مشہور فلسفی روسو نے کہاتھاکہ،’’ کوئی بھی سماج یا کوئی بھی عہد صرف دو حالات میں سانس لیتاہے ،تبدیلی سے پہلے اور تبدیلی کے بعد‘‘۔شایدہمارا عہد اور اردو افسانہ دونوں ایک بڑی تبدیلی کے دور میں قدم رکھ چکے ہیں۔افسانے کا قاری بہت خاموشی سے اس بدلتے منظرنامے کو دیکھ رہا ہے،کون جانے وہ کس تبدیلی کو قبول کرتا ہے اور کسے رد کردیتا ہے۔
افسانہ لکھنے کے لیے، جس سنجیدگی اور ریاضت کی ضرورت ہو تی ہے، افسانے کی تنقیدو تفہیم بھی اتناہی صبر طلب اور مشکل کام ہے، کیونکہ یہ ناقد سے متعدد تقاضے کرتی ہے۔ مثلاً پوری کہانی پر نظر ہونا، کہانی کی جزئیات، زبان، قصہ پن اور فن قصہ نگاری سے واقفیت، اسلوب اور موضوع میں ہم آہنگی وغیرہ افسانے کی تنقید کے اہم اجزا ہیں، جو ناقد سے گہرے اور مسلسل توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ کسی افسانہ نگار کی قدر سنجی کے لئے اس کی جملہ تخلیقات کے علاوہ پورے افسانوی ادب کا مطالعہ بھی خاصا وقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔
فکشن کے مطالعے کے ضمن میں کرداروں، واقعات، تہذیب ومعاشرے اور سماجی ونفسیاتی عوامل کے ساتھ کلیدی اہمیت اُس لسانی برتاؤ کو حاصل ہے جو کہانی کی تشکیل کرتا ہے۔ ادب کو غیر ادب سے جو چیز امتیاز بخشتی ہے وہ ’’اسلوب‘‘ ہے۔ یہ بات فکشن پر سب سے زیادہ صادق اس لئے آتی ہے کہ فکشن نگار کا مقصد قاری تک صرف کہانی، کردار، فضا اور معاشرتی، بشریاتی اور ثقافتی معلومات پہنچانا نہیں بلکہ کہانی کے لسانی برتاؤ سے کرداروں کے اندرونی تضادات، جذباتی تہہ داریوں اور حیات وکائنات کی پیچیدہ اور مشکل سے مشکل آگہی سے اُسے باقاعدہ متعارف کرانا بھی ہے۔
چنانچہ نقاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کہانی کا اسلوبیاتی ولسانی تجزیہ کرکے اُس تجربے کو بھی پہچاننے کی سعی کرے جس نے افسانے یا ناول کو تخلیقی شناخت عطا کیا ہے، اور جس نے کہانی میں طلسمی کیف واثر پیدا کردیا ہے۔ فکشن کی اسلوبیاتی ولسانی ساخت کا ایسا ہی مطالعہ تنقید کے تفاعل کو متعین کرتا ہے۔
یہ عہد متن، لفظ اور معنی کے سلسلے میں نئے سوالات کا حامل ہے۔اس عہد کا افسانہ ایک بڑی دنیا کو لے کر آیا ہے،جس میں کمپیوٹر، سوپر کمپیوٹر،سائبر اسپیس،اسمارٹ فون اور گلوبل ولیج کا تصور کلیدی صورت اختیار کر گیاہے۔فکشن کے نقاد کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ اُن پرانے ٹولس سے ،جن سے وہ منٹو ،بیدی اور کرشن چندر کی کہانیوں کو پرکھتا تھا،اب جابر حسین،شوکت حیات،شموئل احمد، ذوقی، غضنفر، شائستہ فاخری، اختر آزاد، اسلم جمشیدپوری اور شموئل احمد وغیرہ کو نہیں پرکھ سکتا۔
آج کے افسانوں نے اسلوب،تکنیک اور بیانیہ کی سطح پر جو تجربات کیے ہیں،اور عہد نو کی زندگی اور اس کے پرپیچ خط وخال کو افسانے کے ذریعہ جس طرح پیش کیاہے،وہ اپنی جگہ فکشن کا ایک نیا استعارہ ،نیا منظرنامہ ہے۔اس نئے استعارے اور منظرنامے کو جدید تنقید کےبغیر نئے ٹولس کے نہ تو گرفت میں لے سکتی ہے اور نہ اس کی نئی منزلوں کا عرفان پیش کر سکتی ہے۔