مولانا عبدالمجید سالک
فیروز خان نون کی پہلی بیوی، بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کرلی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا : ’’اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟‘‘
مولانا نے بے ساختہ جواب دیا: ’’افٹر نون۔‘‘
٭…٭…٭
ایک بار پانی کی قلت سے مولانا عبدالمجید سالک بہت پریشان تھے۔ پطرس بخاری کو جب ان کی پریشانی کا علم ہوا تو وہ پانی کی کئی بالٹیاں کار میں رکھ کر مولانا کی کوٹھی پر لے گئے اور مولانا سے کہنے لگے: ’’دیکھئے حضور! آپ کو پانی پانی کرنے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔‘‘
سالک صاحب نے فوراً جواب دیا: ’’پطرس صاحب، آپ تو کیا، یہاں بڑے بڑے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
سالک صاحب نے بڑی نکتہ رس طبیعت پائی تھی۔ ایک بار پنڈت ہری چند اختر سے فرمانے لگے… پنڈت جی آپ کا نام کیا ہوا، مسلم لیگ کا جھنڈا ہوگیا۔ پنڈت جی پوچھنے ہی والے تھے کہ سالک صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی، ’’دیکھیے نا، یہ جھنڈے کا رنگ ہے سبز یعنی ’’ہری‘‘ اور اس پر چاند اور تارے کا نام یعنی ہری چند اختر۔
٭…٭…٭
سالک صاحب، ہندو پاک مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے۔ موتی محل ہوٹل میں قیام تھا۔ احباب میں گھرے بیٹھے تھے کہ ایک صاحبِ ذوق نے اپنے یہاں کھانے پر تشریف لانے کی درخواست کی۔ سالک صاحب نے عذر پیش کیا تو خوشتر گرامی نے کہا کہ مولانا ان کی دل شکنی نہ کیجئے دعوت قبول کر لیجیے۔ سالک صاحب نے اپنے روایتی تبسم کے ساتھ فرمایا: ’’مرغ وماہی کی اس دعوت کو قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں، لیکن خطرہ یہ ہے کہ مرغ وماہی کے پیٹ میں مشاعرہ بھی چھپا ہوا ہے۔‘‘ ان کے اس جملہ پر محفل احباب قہقہہ زار بن گئی۔