• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :حافظ عبدالاعلیٰ درانی۔۔۔بریڈفورڈ
تاریخ میں بنو امیہ کا دور حکومت سنہری اور فتوحات کا دور تھا، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں دمشق اسلامی ریاست کا دارالحکومت تھا،موسیٰ بن نصیر افریقہ کا والی ابراہیم بن یوسف موسیٰ کا خادم تھا۔ ابراہیم نے زندگی کے ہر اس موڑ پر اپنے آقا کا ساتھ دیا۔ جہاں سارے ساتھی ساتھ چھوڑ گئے، ابراہیم نے دوبار موسیٰ کی جان بھی بچائی۔ موسیٰ نے اس وفاداری کے بدلے ابراہیم کو اپنا منہ بولا بھائی اور نائب قرار دے دیا۔ ابراہیم ایک جنگ میں شہید ہو گیا، ابراہیم کی بیوہ نے اپنے ننھے بیٹے طارق کا ہاتھ پکڑا اور موسیٰ کے محل پہنچ گئی۔ موسیٰ نے طارق کے سر پر ہاتھ رکھ دیا، یوں طارق بن زیاد موسیٰ بن نصیر کی سرپرستی میں آ گیا، وہ ایک پیدائشی جرنیل تھا، سپہ گری اس کے خون میں شامل تھی، وہ تلوار کے ساتھ اس طرح کھیلتا تھا جس طرح پرندے ہواؤں سے کھیلتے ہیں، وہ بلا کا ذہین بھی تھا، ایمان اور شجاعت بھی اس پر فدا تھی۔ وہ جوان ہوا تو موسیٰ بن نصیر نے اسے طنجہ کا گورنر بنا دیا، یہ شہر آج کل مراکش کا حصہ ہے، سمندر کے پانی اسپین اور طنجہ کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں، دونوں ملکوں میں 14 کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن سماجی مسافت بہت طویل ہے،مراکش افریقہ میں ہے اور اسپین یورپ میں۔ طارق بن زیاد نے شہر کا نظم و نسق سنبھال لیا، اسپین میں اس وقت راڈرک کی حکومت تھی، یہ گاتھ قوم کا بادشاہ تھا، ظالم بھی تھا، لالچی بھی اور بے راہرو بھی۔ اس دور میں مختلف علاقوں کے والی اپنے بچوں کو شاہی آداب سکھانے کے لیے بادشاہوں کے محلات اور درباروں میں بھجوایا کرتے تھے، کاؤنٹ جولین شاہ راڈرک کا ایک والی تھا، اس کی بیٹی فلورنڈا دربار سے وابستہ تھی، وہ بے انتہا خوبصورت تھی، بادشاہ اس کی خوبصورتی دیکھ کر بھٹک گیا، اس نے اسے محل میں بلایا اور بے آبرو کر دیا۔ بیٹی نے باپ کو اطلاع دے دی، باپ بیٹی کو لینے محل پہنچ گیا، شاہ کے سامنے حاضر ہوا اور اپنی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا وہ بیٹی پر گزری قیامت سے واقف ہے۔ اس نے چھٹیاں گزارنے کے بہانے بیٹی کو ساتھ لیا اور گھر روانہ ہو گیا، وہ جب آخری ملاقات کے لیے بادشاہ کے پاس گیا تو بادشاہ نے اس سے کہا جولین تم اس بار ہمارے لیے کوئی تحفہ نہیں لائے۔ جولین نے ادب سے جھک کر عرض کیا حضور میں اگلی بار آپ کو ایسا تحفہ دوں گا، لوگ صدیوں تک اسے یاد رکھیں گے جولین اس کے بعد سیدھا موسیٰ بن نصیر کے پاس حاضر ہوا اور اسے اسپین پر حملے کی ترغیب دی۔ وہ یورپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جولین کی ترغیبات بھی تگڑی تھیں اور اس کی کہانی بھی افسوس ناک۔ چنانچہ موسیٰ بن نصیر نے اپنے دو جرنیلوں طارق بن زیاد اور طریف بن مالک کو سات سات ہزار جوانوں کے دو لشکر بنا کر دئیے اور انھیں جولین کے ساتھ اسپین روانہ کر دیا، یہ دونوں جرنیل صرف ریکی کے لیے آئے تھے لیکن وہ اسپین کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی شوق جہاد کے ایسے جنون میں مبتلا ہوئے کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں لوٹے جب تک اسپین کے تمام بڑے شہر ان کے قدموں میں نہیں آ گئے، طریف بن مالک اسپین کے جس ساحل پر اترا وہاں اس کے نام سے ایک شہر آباد ہوا۔ یہ شہر آج بھی طریفا کے نام سے موجود ہے، یہ ایک جدید شہر ہے لوگ اسے طریفا پکارتے اور طریفا لکھتے ہیں لیکن یہ شہر کس نے آباد کیا، کیسے آباد کیا اور کیوں آباد کیا؟ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں، طارق بن زیاد 5 اپریل 710ء کو جبرالٹر میں اترا اور جہازوں کو آگ لگائی، اس کے پاس کل سات ہزار جوان تھے، اکثریت اس کے اپنے قبیلے بربر سے تعلق رکھتی تھی، راڈرک چالیس ہزار فوج لے کر آیا، مقابلہ ہوا، راڈرک کو شکست ہوئی اور وہ میدان سے فرار ہو گیا۔ طارق بن زیاد جبرالٹر کا قبضہ لینے کے بعد اسپین میں اتر گیا، ۔ 19 جولائی 711ء کو وادی لکا میں بڑا معرکہ ہوا، راڈرک یہ جنگ بھی ہار گیا اور یوں اندلس پر عملاً مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، اسلامی لشکر نے اس کے بعد طلیطہ پر بھی قبضہ کر لیا، یہ شہر آج بھی قائم ہے اور ٹولیدو کہلاتا ہے، طارق بن زیاد کی فتوحات کی خبریں جب افریقہ پہنچیں تو موسیٰ بن نصیر کے دل میں طارق کے لیے رشک کا جذبہ پیدا ہو گیا، اس نے طارق کو مزید فتوحات سے روک دیا، اپنی سلطنت اپنے بیٹے عبداللہ بن موسیٰ کے حوالے کی اور 18 ہزار جوان لے کر خود بھی اسپین پہنچ گیا، یہ جس مقام سے اندلس پہنچا، وہ بعد ازاں جبل موسیٰ کہلایا لیکن یہ جبرالٹر کی طرح مشہور نہ ہو سکا، موسیٰ اسلامی لشکر کو قرطبہ تک لے گیا، خلیفہ بن ولید بن مالک ایک سیلف سینٹرڈ بادشاہ تھا، وہ اپنے علاوہ کسی کو کامیاب اور کامران نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی فتوحات کی خبریں سنیں تو اس نے دونوں کو دمشق طلب کر لیا، موسیٰ نے قرطبہ کا چارج اپنے بیٹے عبداللہ کے حوالے کیا اور طارق کو لے کر دمشق پہنچ گیا، بادشاہ نے دونوں کو معزول کیا اور ان کا احتساب شروع کر دیا یہاں سے اسلامی تاریخ کے دو عظیم جرنیلوں کا زوال شروع ہو گیا اور یہ دونوں گم نامی کے اندھیروں میں اتر گئے، طارق بن زیاد 720ء میں فوت ہوا، اس وقت اس کی عمر محض 39 سال تھی، وہ کیسے فوت ہوا، اس کے جنازے میں کتنے لوگ تھے اور وہ کہاں دفن ہوا تاریخ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے تاہم تاریخ اتنا جانتی ہے مسلمانوں کو آج تک جتنا نقصان مسلمانوں نے پہنچایا، اتنا نقصان کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکا اور طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر اس حقیقت کی بہت بڑی مثال ہیں۔ طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر تاریخ کے گم نام صحراؤں میں گم ہو گئے لیکن اسپین آج بھی زندہ ہے، زندگی جبرالٹر میں بھی زندہ ہے اور جب تک جبرالٹر اور اسپین دونوں موجود ہیں دنیا کا کوئی شخص طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر سے ان کا نام اور کارنامہ نہیں چھین سکتا۔
تازہ ترین