• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ برس اُدھر کی بات ہے۔ گاؤں کے ایک پٹواری ریٹائر ہو کر آئے تو اس موقع پر ملنے والی رقم میں سے ایک تو اپنا گھر” پکا“ کر لیا اور باقی ماندہ رقم سے حج کرنے کا قصد کیا۔ دیہات کے معیار سے پٹواری کا گھر گاؤں کے متمول گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ دیسی گھی اور دیسی مرغ کی فراوانی۔گاؤں میں صاحب ثروت ہونے کا یہی پیمانہ جو ٹھہرا۔ اکثر اوقات تو پٹواری کے بچوں کے قمیض کے پَلو بھی دیسی گھی سے تر ہوتے۔ خیر سے صاحب حج کر کے واپس آئے تو اس فانی دنیا اور یہاں کے بکھیڑوں سے مکمل طور پر منہ موڑ لیا اور اللہ سے لو لگا لی۔ دن کا زیادہ وقت قریبی مسجد میں ہی گزرتا۔ وضع قطع بھی مکمل طور پر شریعت کے مطابق کر لی اور مزاج میں بھی کمال حلیمی پیدا کر لی۔ زبان پر ہر وقت اس دنیا کے فانی ہونے اور آخرت کی زندگی کے ابدی ہونے کا ذکر۔
کچھ عرصہ تو یہ سلسلہ چلا، اس کے بعد محلے داروں اور نمازیوں نے محسوس کیا کہ پٹوار ی صاحب کے مزاج کو اب ریورس گیئر لگنا شروع ہو گیا ہے اور مزاج کی حلیمی آہستہ آہستہ اب تُرشی میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ پہلا شکار تو مسجد میں نماز پڑھنے والے بچے ٹھہرے، وضو صحیح طریقے سے نہیں کیا، سر پر ٹوپی نہیں، التحیات پر بیٹھنے کا طریقہ شریعت کے مطابق نہیں۔ اس کے بعد دوسرا شکار محلے دار اور بزرگ نمازی ٹھہرے۔ معمولی بات پر تکرار اور سخت جملوں کا تبادلہ معمول بن گیا۔ معاملہ یہاں تک ہوتا تو شاید ہمسائے اور محلے دار صبر سے کام لے لیتے، اب تو روزانہ صبح صبح نماز سے پہلے تمام محلے داروں کی باری باری مسجد کے سامنے ریت کے چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑے ہو کر مغلظات کی صورت میں قصیدہ گوئی۔ چونکہ معاملہ اب تھوڑا سیریس ہو چلا تھا لہٰذا محلے داروں نے صاحب کے جوان بیٹوں کو شکایت لگائی کہ والد محترم کو سمجھائیں مگر زمین جنبد نہ جنبد گل محمد! کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پٹواری صاحب کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو گیا ہے تو کسی نے گھریلو پریشانیوں کو پٹواری صاحب کے اس مزاج کا ذمہ دار ٹھہرایا مگر آخر کار گاؤں کے ایک سمجھدار محنت کش بزرگ کی رائے کو صائب سمجھ کر اس سے اتفاق کر لیا گیا۔ فرمایا کہ صاحب نے ساری زندگی پٹوار کی نوکری میں جو دیسی مرغ کھائے ہیں وہ مرغ اب پیٹ میں اذانیں دیتے ہیں جو صاحب کے منہ سے مغلظات کی صورت میں باہر نکلتی ہیں۔
قارئین یہ صرف ایک پٹواری کی زندگی کی کتھا نہیں۔ ہم میں سے ہر بندہ اس دنیا کی مادی جدوجہد میں اس قدر محو ہے کہ اسے احساس ہی نہیں کہ وہ کس ڈگر پر چل رہا ہے اور اس کی زندگی میں مقصدیت نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ اپنی اچھی تعلیم، شہرت، عزت اور دولت کے لئے اپنی تمام توانائیاں صرف کرتا ہے۔ اچھا گھر، اچھی گاڑی، بینک بیلنس، اچھے دوست اور معاشرے میں مقام۔ اپنی کامیابیوں اور دھن دولت کمانے کی کاوشوں سے تھوڑا فارغ ہوتا تو بچوں کی اچھی تعلیم، اچھی خوراک، کاروبار اور ملازمت کی فکر میں پڑ جاتا ہے ۔ گویا ہر انسان کا یہ مخصوص چکر ہے جس میں وہ زندگی گزار دیتا ہے اور آخر میں وہی کُل نفسِِ ذائقةُ المَوت۔ انسان کی یہ جدوجہد دراصل اس کے اپنے اور مجموعی طور پر معاشرے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان جمود کا شکار ہو کر اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے بوجھ بن جائے مگر اس سارے چکر میں ایک بات کا خیال رکھنا بہرحال ضروری ہے کہ اس دھن دولت، عزت اور شہرت کمانے کے ذرائع کیا ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی کا حق غصب کر کے اپنے لئے دولت کما رہا ہے؟ کہیں کسی کو بے توقیر کرکے اپنی عزت و تکریم میں اضافہ تو نہیں کر رہا؟ دوسرا کہیں اُس نے اپنی خواہشات کی لسٹ اتنی لمبی تو نہیں بنا لی کہ جس کو پورا کرتے کرتے مر گیا مگر خواہشات پھر بھی پوری نہ ہو سکیں؟ کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے ہر انسان کی ضروریات کی کوئی حد تو ہو سکتی ہے مگر خواہشات کی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ضروریات کا پورا ہونا تو ممکن ہے اور خواہشات کا پورا ہونا ناممکنات میں سے۔ انسان اپنی ضروریات پوری ہونے کے باوجود پھر بھی اپنی بے لگام خواہشات کی تکمیل کے لئے اطمینان قلب سے محروم رہتا ہے۔ ”تم کو مال کی بہت سی طلب نے اللہ سے غافل کر دیا۔ یہاں تک کے تم نے قبریں جا دیکھیں“(القرآن،سورة التکاثر)
انسان کو اللہ کریم کی طرف سے بے شمار نعمتیں عطا ہوتی ہیں مگر وہ ان پر قانع ہونے اور ان کا شُکر ادا کرنے کے بجائے ہمیشہ کسی دوسری چیز کی خواہش لے کر کُڑھتا رہتا ہے اور اُس کی ایک خواہش پوری ہونے کے بعد دوسری خواہش سر اٹھا لیتی ہے اور اس طرح خواہشات کا لامتناہی سلسلہ زندگی کے آخری سانس تک جاری رہتا ہے اور خواہشات کا یہ سلسلہ جہاں ایک طرف انسان کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے روک لیتا ہے دوسری طرف اس کی زندگی کو بے اطمینانی اور مسلسل اضطراب کی کیفیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ رب ذوالجلال نے فرما دیا ”بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے“(القرآن، سورة العادیات)
لالچ اور خوف رب کائنات کی طرف سے انسان کی سرشت میں شامل کر دیئے گئے۔ یہی وجہ سے کہ رب تعالیٰ کی ذات نے بھی انسان کو اس دنیا میں راہ راست پر رکھنے کے لئے جنت کا لالچ اور جہنم کا خوف دیا ہے۔ اس دنیا میں بھی اگر دیکھیں تو یہی دو عوامل انسان کے ہر عمل میں کار فرما نظر آتے ہیں۔ کہیں کوئی کام وہ لالچ میں کر رہا ہوتا ہے اور کہیں خوف اس کو کسی عمل سے روک رہا ہوتا ہے مگر انسان چونکہ اشرف المخلوق کے درجے پر فائز کیا گیا ہے اس لئے اس کی بہرحال کوشش ہونی چاہئے کہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی لالچوں اور خوف سے بالاتر ہو کر اپنے کردار کی تشکیل کرے اور اگر وہ اس طرح سے اپنی کردار سازی نہ کر سکا اور اپنی چھوٹی چھوٹی دنیاوی لالچوں میں آکر حلال حرام اور جائز ناجائز کی تفریق ختم کر دے گا تو یقینا وہ اپنے آپ کو اشرف المخلوق کی حیثیت سے نیچے گرا کر اپنے آپ کو دنیا میں ہی ذلیل و رسوا کر دے گا۔ آخرت کی ذلت و رسوائی تو ہے ہی اس کا مقدر۔ دنیاوی لالچ، خوف اور اپنی نفسانی خواہشات کے تابع گزاری ہوئی زندگی اور اپنے، اپنے خاندان، دوستوں اور رشتہ داروں کی خاطر دوسروں سے کی گئی ناانصافیوں، زیادتیوں کا مداوا زندگی کے آخری حصے میں بالکل ممکن نہیں ہوتا۔ سوائے ندامت کے اس کے پاس کچھ باقی نہیں ہوتا۔
آج بلاشبہ پاکستان ایک قحط الرجال کی کیفیت سے دوچار ہے۔ مردم شماری کریں تو بندے لاتعداد (مختار مسعود نے تو یہ بات کئی دہائیوں قبل کے پاکستان کے بارے میں لکھی تھی۔ اس وقت کا قحط الرجال شاید اتنا سنگین نہ ہو) مگر ملک کی سیاسی اور انتظامی مشینری چلانے کے لئے چند سو صاحب کردار لوگوں کی تلاش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہم یہاں کئی قسم کے سیاسی اور انتظامی نمونے آزما چکے مگر یہاں کے غریب کی قسمت ہے کہ سنورنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ثابت ہوا اگرچہ اچھے، آزمودہ اور مقامی ماحول سے موافق نظام حکمرانی کا ہونا بہت ضروری مگر اس سے بھی زیادہ ضروری نظام کو چلانے والے لوگ۔ یہاں اگر حکمرانی کرنے والے قصور وار ہیں تو اتنا ہی ہم جو ایسے لوگوں کو حقِ حکمرانی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم من حیث القوم کرپٹ اور بے حس ہو چکے ہیں۔ شاید ہم تمام اس معاشرے کے بگاڑ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کوئی زیادہ اور کوئی کم حصہ ڈال رہا۔ فرق صرف اتنا کہ ایک دوست کے بقول یہاں کوئی انڈہ چور اور کوئی مرغی چور ہے۔
Exceptionsالبتہ ہر جگہ ہوتی ہیں۔اب خوش آئند، بہت ہی خوش آئند بات کہ الیکشن کا انعقاد ہو رہا ہے۔ غریب آدمی کے لئے موقع ہے کہ وہ اپنے حلقے میں صاحب کردار اور خوف خدا رکھنے والے امیدوار کو منتخب کر کے اپنی دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرے اور کسی منصب پر فائز شخص کے لئے تو ہر وقت موقع کہ وہ اپنے ”پیٹ“ میں جھانک لے کہ کہیں دیسی مرغ تو جمع نہیں ہو رہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد اذانیں دینا شروع کر دیں اور اُس وقت اِن مرغوں کا کوئی علاج کسی مستند ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں ہوگا۔
تازہ ترین