ڈاکٹر اشہد کریم
جب میں نے احتجاج کے معنی حاصل کرنے کے لیے جامع فیروز اللغات کے اوراق الٹے تو اعتراض ،حجت ، انکار، مخالفانہ آواز اٹھانا، اظہار ناپسند یدگی کرنا ،جیسے مطالب برآمد ہوئے اور مزاحمت کے معنی روک ، ممانعت ، تعرض کے ملے۔ میرے خیال سے ان دونوں لفظ کے معنی کی ترسیل کے لیے اگر اور لغات بھی دیکھی جائیں تو ایسے ہی مطالب برآمد ہوں گے۔ اردو میں احتجاج ایک لفظ ہے ،جس کا مترادف مزاحمت ہے اور اس کی تفہیم کے لیے بغاوت اور انقلاب کے لفظ بھی ہیں۔ ادب میں اس کے معنی وہ نہیں ہیں جو لغت میں بیان کیے گئے ہیں۔ احمدصغیر اپنی کتاب ’جدید اردو افسانوں میں احتجاج کی بازگشت ، میں حتجاج کی تفہیم یوں پیش کرتے ہیں:
’ادب وشعر کے حوالے سے لفظ’’احتجاج ‘ ایک اصطلاحی شکل بن گیاہے۔ ہم اگر لغوی طور پر احتجاج کے معنی تلاش کریں تو یہ معلوم ہوگا، احتجاج اس جذبے اور خیال کو کہتے ہیں جو انسان کے دل ودماغ میں کسی کے خلاف پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مخالفانہ رویہ ہے، جس میں بغاوت کی بونہیں ملتی ہے بلکہ احتجاج کرنے والے کی کمزور ی کا احساس شدید ہوتا ہے۔ احتجاج وہی کرتا ہے جو بنیادی طور پر پر کمزورہوتا ہے اور اسی لیے احتجاجی رویے میں بنیادی طور پر مفاہمت کے پہلو ہوتے ہیں۔
مثلا اگر آپ اپنی حکومت سے کسی مانگ کی تکمیل کی خاطر کوئی تحریک چلاتے ہیں یا بھوک ہڑتال کرتے ہیں تو دراصل یہ احتجاجی جذبہ مانگ کے حصول تک باقی یا برقرار رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ احتجاجی رویہ اپنی ناکامی میں بغاوت نہیں ہے اور کامیابی میں انقلابی نہیں ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ احتجاجی رویہ اگر کسی تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے کہ تو پھر اس میں بغاوت کی یا انقلاب کی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘
اردو افسانوں میں احتجاج اور مزاحمت کی فضاکا آغاز ابتداء سے ہی ہوجاتا ہے۔ ابتدائی دور میں اردو افسانے کی ڈور تھامے ہوئے دو قلم کارنظرآتے ہیں۔ ایک منشی پریم چنددوسرے سجاد حیدر یلدرم ۔ سجادحیدر یلدرم نے تو رومانیت کی خیالی دنیاآبادکی ، مگر منشی پریم چند اسے زمینی حقیقت سے قریب کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ احتجاج اور مزاحمت کی ساری تصویر یں زمین سے جڑی ہوئی ہیں، اس لیے اس کے سارے رنگ روپ اسی مٹی میںملتے ہیں ۔ احتجاج کا پودا اسی مٹی میں اُگتا ہے۔ زمین زرخیز ہویا نہ ہو۔
اردو افسانے میں رومانیت کا رنگ بھر کر روایتی غزل بنانے والوں کے نام وقت کی دھول میں دب گئے، جب کہ اسے احتجاجی زمین فراہم کرنے والے آج بھی زندہ ہیں۔’’سوزوطن‘‘ سے ’کفن‘ تک جو پریم چند نے اردو افسانوں میں احتجاجی فضا بنائی وہ بہت کارگرثابت ہوئی ۔’سوزوطن‘‘ کے درد نے افسانوی بدن میں روح پھونک دی۔ پریم چند کا پہلا ہی قدم انقلابی اٹھا۔ ۱۹۳۶ میں ترقی پسند تحریک نے قلم کاروں کو سماجی نظریہ فراہم کیا، جس کی لہر بہت تیزی سے اٹھی۔
دبے کچلے لوگوں کی زندگی ادب کا حصہ بن گئی۔ ۱۹۴۷ ء میں ہندوستان کی آزادی تقسیم وطن کے المیے کے ساتھ ہوئی۔ مذہبی جبر نے قلم کاروں کو پھر مواد فراہم کیا،جس کے سبب کئی بہترین افسانے وجود میں آئے ۔ان افسانوں میں احتجاجی رویہ، انقلابی بازگشت بھی اور بغاوت کا مزاج بھی تھا۔ انھیں ہمارے افسانوی ادب میں آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مثلا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ’کھول دو‘، ’موذیل‘، ’ٹھنڈاگوشت‘، ’سیاہ حاشیے‘ (منٹو) ’پشاور ایکسپریس‘، ’آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد امرتسر‘، ’ہم وحشی ہیں‘(کرشن چندر)’جڑیں‘، (عصمت چغتائی‘، ’لاجونتی‘، (بیدی) ’کالے کو س ویبلے ۳۸‘(بلونت سنگھ)’ ٹیبل لینڈ‘(اپندرناتھ اشک)’آخ تھو‘(پریم ناتھ کور)’کالی رات‘ (عزیزاحمد) ’بھوکا ہے بنگال‘(تسنیم سلیم چھتاری) ’شکر گذار آنکھیں‘ (حیات اللہ انصاری)’سردارجی‘(خواجہ احمد عباس)، ’یاخدا‘ (قدرت اللہ شہاب)، ’پرمیشورسنگھ‘( احمد ندیم قاسمی) ’سورج سنگھ‘ (ممتاز حسین )’بھاگ ان بردہ فروشوں سے ‘( رامانند ساگر) اس موضوع پر بہترین افسانے ہیں۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات پر لکھنے والوں میں کرشن چند رکے احتجاجی رویے نے سب سے پہلے آوازاٹھائی، اس موضوع پر ’ہم وحشی ہیں‘ ان کا افسانوی مجموعہ سب سے پہلے آیا۔
منٹو سب سے باغی اور انقلابی قلم کارتھا، جس نے اردو افسانے کو نئی معنویت دی۔ ’’ٹھنڈاگوشت‘‘ میں اعصاب شکن کی اتنی عمدہ مثال شاید ہی مل سکے۔منٹو نے ہی فسادات پر سب سے زیادہ افسانے لکھے’’سیاہ حشیے‘‘ میں تکنیکی احتجاج بھی کیا۔عصمت چغتائی بھی منٹو کے ساتھ ہی چلتی نظر آئیں۔ یہ دونوں افسانہ نگار سراپا احتجاج تھے ،جب کہ راجندرسنگھ بیدی کے فن میں احتجاج خودسپرد گی کی راکھ لیے ہوئےتھے۔ وہ شعلوں کو بھڑکانے میں نہیں راکھ کرید نے میں یقین رکھتے تھے۔راجندرسنگھ بیدی کے فن میں احتجاج خودسپرد گی کی راکھ لیے ہوئےتھے۔ وہ شعلوں کو بھڑکانے میں نہیں راکھ کرید نے میں یقین رکھتے تھے۔
جدیدیت سے پہلے اردو افسانے میں تمام احتجاجی ، مزاحمتی ، بغاوتی اور انقلابی تجربے اپنا واضح نقش ونگار قائم کیے ہوئے تھے، کیوں کہ اس میدان کے لیے کھلی ہوئی باتوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔
ادب چونکہ عوام سے رشتہ برقرار رکھتا ہے، اس میں سماج کی جھلک ملتی ہے لہذا تجریدی اور علامتی افسانوں نے ابہام پیداکردیا۔ قرۃ العین حیدر اورانتظار حسین کے یہاں ماضی کی بازیافت کے نمونے ملتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اساطیر سے بہت کا م لیا ۔ ماضی کی بازیافت میں شکست تہذیب اور زوال اقدار کے بھی پہلو ملتے ہیں ’کیکٹس لینڈ‘‘ قرۃ العین حیدر کا اور ’’زرد کتا‘‘ انتظار حسین کا ایسا ہی افسانہ کہا جاسکتا ہے۔
زندگی کے تجربات جب داستان بنتے ہیں تو انہیں واقعی کسی جیکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ بلا تمہید اپنے نشانے پر جا پہنچتے ہیں۔ افسانوں کے واقعات اور کہانی کی رو سے متصادم ہو کر ان کاقاری شاید اسی بنا پر بکھرتا نہیں بلکہ ان میں شریک ہوجاتا ہے اور یہی شرکت فن کار اور فن پارے کی انفرادیت اور پہچان کا موجب ہوتی ہے۔
احتجاج کے لیے بیانیہ کی سخت ضرورت ہے، جس میں گنجلک زبان سے کبھی کبھی کام لیا جاتاہے۔ فیشن کے طور پر بہت سارے قلم کار جدیدیت سے جڑے، مگر یہاں کامیابی مشکل تھی۔ اس لیے ۱۹۷۰ء کے بعد افسانے کو پھر بیانیہ کی طرف لوٹنا پڑا ۔ماضی کے تمام تجربوں کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے اردو افسانے کا قافلہ مستقبل کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔
آج کے دور میں افسانہ نگاروں کی تعداد اچھی خاصی ہے، اس میں ترقی پسند نظریے کے علم بردار بھی ہیں جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے متاثر قلم کار بھی ہیں۔نئی نسل میںکئی افسانہ نگارایسے ہیں، جن کے افسانے احتجاجی رویہ اپنے عہد کی کڑوی سچائیاں لیے ہوئےہیں۔