• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً پورا یورپ ہی اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔ یہود و نصاریٰ کا بس نہیں چلتا کہ وہ لمحہ بھر میں اسلام کو نابود کردیں لیکن ’’جس کا حامی ہو خدا، اس کو مٹا سکتا ہے کون‘‘۔ فرانس میں گستاخانہ خاکے بڑی تعداد میں سرکاری سرپرستی میں آویزاں کئے گئے۔ فرانسیسی صدر پاگل ہو گیا ہےجواِس گستاخی کا سرخیل ہے۔ دنیائے اسلام سراپا احتجاج ہے لیکن فرانسیسی صدر کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ پوری مسلم دنیا کو چاہئے کہ فرانس کا اُس وقت تک مکمل بائیکاٹ کرے جب تک فرانس اپنی اِس گستاخانہ حرکت پر معذرت کے بعد آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کرے، اُس وقت تک فرانس کیساتھ کسی قسم کا لین دین نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر فرانس میں اپنے سفیرکو واپس بلائے اور فرانسیسی سفیر کو واپس بھیج دیا جائے، سفارتی تعلقات آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کے وعدے سے مشروط ہونے چاہئیں۔ یہ بحیثیت مسلمان اپنی جان، اپنا مال، اپنی شان، اپنی آل اولاد اپنا سب کچھ رسولﷺ پر قربان کرنے کا وقت ہے، تب ہی حبِ رسولﷺ کا تقاضا پورا ہو سکے گا۔ ہمیں حبِ رسولﷺ کو جہاد فی سبیل اللہ کی طرح لینا ہوگا تب بھی حرمتِ رسولﷺ کا تقاضا پورا نہ کر سکیں گے۔ ابتدائے اسلام سے یہودو نصاریٰ اسلام دشمنی پر کمربستہ ہیں، وہ ابھی تک اپنی نصرانی شکست، جو اُسے صلیبی جنگوں میں اُٹھانا پڑی تھی، کو بھلا نہیں سکے۔ فرانس ہی نہیں، پورا یورپ ہی اِس مذموم سازش اور کوشش میں ملوث ہے۔ ہائے افسوس! قریباً دو ارب مسلمانوں کے ہادیٔ برحق کے گستاخانہ خاکے اِس بےشرمی سے حکومتی سطح پر آویزاں کئے گئے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مسلم قوت کو دعوت دی جارہی ہے کہ آئو اگر دم ہے تو مقابلے پرآئو لیکن ہم اور ہمارے رہنما اور اکابرین ستو پی کر سو رہے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی تماشے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ موقع ہے کہ حرمتِ رسولﷺ کے لئے تمام اور ہر قسم کی مصروفیات کا رُخ اِس گستاخانہ مہم جوئی کی طرفموڑ دیں، جتنی شدت سے مذمت کی جا سکے، کرنی چاہئے۔ حکومتِ وقت کو، جو ایک مسلم ریاست ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، فوری طور پر اِس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں اُٹھانا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ یہ گستاخی مسلم اُمہ کے خاموش احتجاج پر کسی نئی صلیبی جنگ مسلط کرنے کا پیش خیمہ بن جائے کیونکہ دشمن نے بہت سوچ سمجھ کر یہ گستاخانہ قدم اُٹھایا ہے، یہ کوئی انفرادی گستاخی نہیں بلکہ سوچی سمجھی نصرانی سازش معلوم ہورہی ہے۔

کلیسا کا جہاں بس چلتا ہے وہ اپنی سی کرنے سے باز نہیں آتا، اسلام اور پیمبرِؐ اسلام سے متعلق وہ اپنے سفلی جذبات کے اظہار سے باز نہیں آتا۔ گستاخانہ خاکوں سے وہ مسلم اُمہ کی دل آزاری کرکے اپنے سفلی جذبوں کی تسکین کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ نصرانیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو کسی بھی طرح متحد نہ ہونے دیا جائے، اُن میں باہمی اختلاف پیدا کیا جائے، اختلافات کو بڑھاوا دینے میں ہر طرح سے مدد کرتے رہنا ہی اُن کا مقصدہے۔ اس طرح ایک ایک کمزور ملک پر ہاتھ ڈالنے میں اُنھیں آسانی بھی رہتی ہے۔ یہ بات کلیسا خوب اچھی طرح سمجھتا اور جانتا ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے نبیﷺ کی شان و آن و ناموس پر اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ شاید اِسی سبب اِس بار بڑے پیمانے پر گستاخی کی جرأت کی گئی، یقیناً اِس کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما ہے۔ دراصل یورپ مسلمانوں کو اپنے مدِمقابل کھڑا کرکے اپنے انتقامی جذبوں کی تسکین کرنا چاہتا ہے۔ صلیبی جنگوں کی کوئی سیریز شروع کرنا چاہ رہا ہے۔ شاید کلیسا بھول گیا ہے کہ جنگ ہتھیاروں سے کہیں زیادہ جذبوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہے۔ مسلمان جب میدان جنگ میں اُترتا ہے تو وہ شہادت کے جذبے سے اُترتا ہے۔ جنگ چاہے کسی بھی پیمانے پر چھیڑی جائے وہ جوہری اسلحہ کے استعمال کے باعث عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ دشمن نے بڑی سوچ بچار کے بعد اپنا جال بچھایا ہے۔ مسلمان اپنے جذبوں پر قابو نہ پا سکے گا، دشمن کی بھی ایسی ہی خواہش ہو سکتی ہے۔ دشمن کی چالاکی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اہلِ اسلام کے پاس فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بہت مضبوط حربہ ہے۔ اِس سے فرانس جلد ہی گھٹنوں پر آ جائے گا۔ وطنِ عزیز میں فرانس کے جتنے ادارےکام کر رہے ہیں، جس سطح پر بھی کام کررہے ہیں اُن کو حکومتی سطح پر سیل کر دینا چاہئے۔ عوام کو فرانسیسی اداروں اور مصنوعات کامکمل بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ اللہ وطنِ عزیز کا حامی و ناصر ہو۔

تازہ ترین