پاکستان میں کرکٹ سے جذباتی وابستگی رکھنے والے کروڑوں شائقین اب اس بات پر متفق ہیں کہ قومی ٹیم کی کارکردگی میں بتدریج کمی آرہی ہے۔پی سی بی کے مسلسل دعووں اور اقدامات کے باوجود ٹیم اگر زمبابوے سے خراب حکمت عملی کے بعد ایک میچ بھی ہار جائے تو ہمیں بر ملا یہ کہنا پڑے گا کہ سوچ تبدیل کرنے کے لئے کوچ کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
مصباح الحق پاکستان کے عظیم کھلاڑی اور کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان رہے ہیں لیکن زمبابوے کے خلاف پنڈی کے آخری ون ڈے میں ان کے فیصلوں کو دیکھ کر لگا کہ شائد ان میں ایک اچھا کوچ بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔1986کے ہاکی ورلڈ کپ میں ایک کھلاڑی افتخار کا بہت چرچہ رہا۔مشہور اداکار خالد عباس ڈار نے افتخار پر جو مزاحیہ گانا گایا اسے آج بھی شاہکار مزاحیہ گانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اسی طرح مصباح الحق نے مڈل آرڈر بیٹسمین افتخار احمد کو منوانے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اسے دیکھ کر ہاکی والے افتخار کی یاد تازہ ہوگئی۔
افتخار احمد کی صلاحیت سے انکار نہیں ہے لیکن انٹر نیشنل کرکٹ میں وہ بیٹنگ میں وہ توقعات پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ جب آپ یہ تحریر پڑ ھ رہے ہوں افتخار احمد زمبابوے کے خلاف دو ٹی ٹوئینٹی میں پرفارم کر لیں لیکن بڑی ٹیموں کے خلاف وہ جب بھی میدان میں اتریں گے انہیں مشکل پیش آئے گی۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو تین سال کے لئے ہیڈ کوچ بنانے کے بعد انہیں کوچنگ کا تجربہ دینے کےلئے اسلام آباد یونائیٹیڈ سے منسلک کیا۔
اسلام آباد کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ پاکستان سپر لیگ فائیو کی وہ بدقسمت فرنچائز رہی جو ٹاپ فور میں کوالی فائی نہ کرسکی۔مصباح الحق کی سوچ کو دیکھ کر حال ہی میں پی سی بی نے ان سے چیف سلیکٹر کی ذمے داریاں واپس لی ہیں ۔
لیکن اگر وہ پاکستان ٹیم کو اوپر لانے میں ناکام رہے تو ہوسکتا ہے کہ پی سی بی کو ان کے ہیڈ کوچ کے کردار کے بارے میں سوچنا پڑے کیوں کہ پی سی بی انتظامیہ اپنے حالیہ فیصلوں کی وجہ سے مسلسل تنقید میں ہے اور اگر پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نہ آئی تو پھر مصباح الحق کے مستقبل پر بورڈ کو سوچنا پڑے گا۔
عام شائق کو کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی سے دلچسپی ہے لیکن جب ٹیم مسلسل دکھ دے گی اور تنقید ہوگی تو پھر پی سی بی کو انتہائی قدم اٹھانا پڑے گا۔
احسان مانی کہہ چکے ہیں کہ پی سی بی ہر تنخواہ دار ملازم کا احتساب ہوتا ہے ۔مصباح الحق کو بھی سوچ تبدیل کر نا ہوگی ورنہ احتساب کے لئے تیار رہنا ہوگا۔زمبابوے کے خلاف سیریز کے لیے 22 رکنی ممکنہ پاکستانی ا سکواڈ محمد عامر، شعیب ملک اور سرفراز احمد جیسے سینیئر کھلاڑی جگہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
پھر ون ڈے ٹیم سے ان فارم محمد حفیظ کو بھی ڈراپ کردیا گیا۔زمبابوے کی ون ڈے سیریز سے قبل پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے گذشتہ 12 ماہ سے کوئی ون ڈے میچ نہیں کھیلا تھا۔ اس دورے میں موجود ون ڈے سیریز آئی سی سی کرکٹ ولڈ کپ سپر لیگ کا حصہ ہے اور ورلڈ کپ 2023 کا کوالیفائنگ راؤنڈ ہے۔دنیا کی سات صف اول کی ٹیموں نے براہ راست ورلڈ کپ میں کوالی فائی کرنا ہے۔
زمبابوے نے تیسرے ون ڈے میں پاکستان کو سپر اوور میں شکست دے کر دس قیمتی پوائنٹس سے محروم کردیا۔اسی میچ میں کوچ کی حکمت عملی پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔مصباح کہتے ہیں کہ شعیب ملک اور سرفراز احمد کی جگہ عبداللہ شفیق جیسے نوجوان کھلاڑیوں کو جگہ دی گئی ہے۔ قومی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں عبداللہ شفیق کی سنچری کے علاوہ اچھی کارکردگی اسکواڈ میں ان کی جگہ کا باعث بنی ہے۔
لیکن عبداللہ شفیق کو کسی ون ڈے میچ میں کھلانے سے گریز کیا گیا۔چیف سلیکٹر کا کہنا تھا کہ اس کا ’ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔‘ جبکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد سے کہا گیا ہے کہ دورۂ نیوزی لینڈ میں جگہ بنانے کے لیے وہ قائد اعظم ٹرافی میں اپنی فارم بحال کر سکتے ہیں۔
سرفراز احمد نے کے پی کے کی جانب سے 133رنز کی اننگز کھیل دی لیکن پاکستان ٹیم میں محمد رضوان تینوں میچوں میں بیٹنگ میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔مصباح الحق کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کی وجہ سے مصروفیات بڑھ جائیں گی لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہیڈ کوچ کی حیثیت سے پاکستانی ٹیم پر اپنی مکمل توجہ مرکوز رکھیں اور چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں۔
مصباح کی جگہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے اعلان کے بعد محمد اکرم کو نئے چیف سلیکٹر بننے کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔مصباح الحق نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم تینوں فارمیٹ میں صف اول کی تین بہترین ٹیموں میں آئے۔مصباح الحق نے اپنی ایک سالہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سال اچھا رہا ہے اور اس میں کئی مثبت پہلو سامنے آئے۔ ان کی پوری کوشش تھی کی کہ جو بھی فیصلے کریں وہ پاکستانی کرکٹ کے بہترین مفاد میں ہوں۔مصباح الحق گذشتہ سال چار ستمبر کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مقرر کیے گئے تھے۔
اس سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر تھے۔پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ایک شخص کو بیک وقت یہ دو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔جس کمیٹی نے مکی آرتھر کا کوچ کی حیثیت سے معاہدہ تجدید نہ کرنے کی سفارش کی تھی، مصباح الحق اس کمیٹی کا حصہ تھے جبکہ اُن سے قبل چیف سلیکٹر کی ذمہ داریاں انضمام الحق نبھا رہے تھے۔مصباح الحق کی بحیثیت چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ پہلی سیریز سری لنکا کے خلاف تھی جس میں پاکستانی ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی سیریز کے تینوں میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا البتہ پاکستانی ٹیم ون ڈے سیریز دو صفر سے جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
ٹی ٹوئنٹی سیریز کے سلیکشن میں مصباح الحق اور کپتان سرفراز احمد کے درمیان اختلاف رائے سامنے آیا تھا۔پھر سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے ہاتھ دھونا پڑا۔اور ٹیم سے باہر کرکے واضع پیغام دیا گیا۔مصباح الحق نے اس سیریز میں عمراکمل اور احمد شہزاد کو پاکستانی ٹیم میں واپس لانے کا فیصلہ کیا جس پر کپتان سرفراز احمد خوش نہیں تھے۔
مصباح الحق کا یہ فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا اور عمراکمل اور احمد شہزاد دونوں ان کے اعتماد پر پورے نہیں اترے لیکن اس کا خمیازہ سرفراز احمد کو بھگتنا پڑا تھا اور اسی سیریز کے نتیجے کو بنیاد بنا کر ان کی کپتانی چلی گئی تھی۔مصباح الحق کو بحیثیت چیف سلیکٹر اُس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب آسٹریلیا کے اہم دورے سے قبل تجربہ کار فاسٹ بولرز محمد عامر اور وہاب ریاض نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے معذرت کرلی جس پر نوجوان فاسٹ بولرز محمد موسیٰ اور نسیم شاہ کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کرنا پڑا تھا۔
مصباح الحق نے بحیثیت چیف سلیکٹر ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں پانچ کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع فراہم کیا جن میں خوشدل شاہ، احسان علی، محمد موسی، حارث رؤف اور حیدرعلی شامل ہیں۔مصباح الحق کی سلیکشن کے معاملے میں یہ سوچ کارفرما رہی کہ فوری طور پر سینئر کھلاڑیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اب ان کی سوچ تبدیل دکھائی دے رہی ہے۔ان کی پالیسی میں بظاہر جھول دکھائی دکھا رہا ہےانھوں نے جہاں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینے کی پالیسی اپنائی وہیں محمد حفیظ، شعیب ملک اور وہاب ریاض جیسے سینئیر کھلاڑیوں پر بھی ان کا اعتماد برقرار رہا۔پھر انہیں ڈراپ کرکے اپنی پالیسی کی نفی کردی۔پاکستان زمبابوے ون ڈے سیریز کے بعد ٹی ٹوئینٹی سیریز آج ختم ہوجائے گی ۔ایسے میں پاکستان سپر لیگ کے بقیہ چار میچ کراچی میں کرانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے بقیہ چار میچز میں مجموعی طور 21 غیرملکی کھلاڑی شرکت کرنے کراچی آرہے ہیں۔جس میں جنوبی افریقاکے 7، انگلینڈ کے 6، ویسٹ انڈیز کے 4، بنگلہ دیش کے 2 جبکہ آسٹریلیا اور نیوز ی لینڈ کے ایک ایک کھلاڑی شامل ہیں۔ان اکیس کھلاڑیوں میں جنوبی افریقہ کے فاف ڈوپلیسی کا نام سب سے نمایاں ہے، جو پہلی مرتبہ پی ایس ایل میں شرکت کریں گے۔
پیر کو پی سی بی نے اعلان کیا کہ فاف ڈوپلیسی نے اس سے قبل 2017 میں آئی سی سی ورلڈالیون ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ اب اس ایونٹ میں پشاور زلمی کی نمائندگی کریں گے۔ ٹورنامنٹ کے پلے آف میچز 14، 15 اور 17 نومبر کونیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے۔ ڈوپلیسی 255 انٹرنیشنل میچوں میں جنوبی افریقاکی نمائندگی کرچکے ہیں۔انہیں قومی ڈیوٹی پر مصروف ویسٹ انڈیز کے کیرون پولارڈ کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ جنوبی افریقاسے تعلق رکھنے والے کیمرون ڈیلپورٹ (کراچی کنگز) ، ڈین ویلاز ، ڈیوڈ ویزے (لاہور قلندرز) ، رائیلی روسو،عمران طاہر (ملتان سلطانز) اور ہارڈس ولیجوئن (پشاور زلمی) بھی لیگ کے بقیہ میچوں میں ایکشن میں نظر آئیں گے۔ایلکس ہیلز (کراچی کنگز) اورجیمز ونس (ملتان سلطان) سمیت انگلینڈ کے چھ کرکٹرز نے بھی لیگ کے بقیہ میچوں میں شرکت کے لئےآمادگی ظاہر کردی ہے۔
دیگر انگلش کرکٹرز میں سمت پٹیل (لاہور قلندرز)، ایڈم لیتھ، روی بوپارہ (ملتان سلطانز)اور لیام لیونگ اسٹون (پشاور زلمی) شامل ہیں۔ویسٹ انڈیز کےچیڈوک والٹن اور روتھرفورڈان میچز میں کراچی کنگز جبکہ کارلو س بریتھ ویٹ اور ڈیرن سیمی پشاور زلمی کی نمائندگی کریں گے۔روتھر فورڈ کو کرس جارڈن کی جگہ اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش کے تمیم اقبال(لاہور قلندرز)اور محمود اللہ (ملتان سلطانز) جبکہ آسٹریلیا کے بین ڈنک (لاہور قلندرز) اور نیوزی لینڈ کے مچل میکلینگھن (کراچی کنگز) بھی ان بقیہ میچوں میں شرکت کریں گے۔پاکستان ٹیم اور ٹیم انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات ضرور اٹھ رہے ہیں لیکن پی سی بی کو بھی کریڈٹ دینا ہوگا جو کورونا کے مشکل حالات میں ڈومیسٹک اور انٹر نیشنل کرکٹ کامیابی سے کرارہا ہے۔