پاکستان کرکٹ بورڈنےایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے بابر اعظم کے سر پر تینوں فارمیٹ کی قیادت کا تاج سجا دیا ہے۔بلاشبہ بابر اعظم کا شمار اس وقت دنیا کے بہترین بیٹسمینوں میں ہوتا ہے۔خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ بابر اعظم تینوں فارمیٹ کی کپتانی کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور ان کی کارکردگی متاثر ہوجائے، پاکستان کرکٹ بورڈ نے گذشتہ سال سرفراز احمد کو قیادت سے فارغ کیا اور اس سال اظہر علی کو ٹیسٹ کی کپتانی سےہٹاکر ایک منفرد تجربہ کیا ہے۔
بابر اعظم نے ابھی تک جن سیریز میں کپتانی کی ہے ان کی بیٹنگ پہلے سے بہتر دکھائی دی ہے اس لئے اب انہیں سب سے مشکل فارمیٹ میں کپتان بناکر ایک مشکل فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی راہداریوں پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ کا کپتان بنانے کی تجویز پی سی بی کو اعلی حکومتی شخصیت نے دی تھی۔
ان کا خیال ہےکہ بابر اعظم ایسا کھلاڑی ہےجو پاکستان کرکٹ کو بہت اوپر لے جاسکتا ہے۔اہم حکومتی شخصیت کی ہدایت پر بابر اعظم کو یہ بھاری ذمے داری سونپی گئی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کے لئے لاہور میں ایک ایسے استاد کی تقرری کی ہے جو انہیں انگریزی اور اردو پڑھاتے ہیں اور زبان کی آگاہی اور سمجھ بوجھ کے لئےان پر کام کیا جارہا ہے۔
جس وقت بابر اعظم لاہور میں نہیں ہوتے وہ آن لائن کلاسیں لیتے ہیں۔استاد ان کی شخصیت پر بھی کام کررہے ہیں انہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس طرح میڈیا کا سامنا کریں گے اور کس طرح انہوں نے محافل میں بڑے لوگوں سے میل ملاپ رکھنا ہے۔پی سی بی کو یقین ہے کہ استاد کی تقرری سے بابر اعظم کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی آئے گی ۔وہ اس وقت دنیا کے چند بڑے بیٹسمینوں میں شامل ہیں استاد کی تقرری سے ان کی بات چیت کے انداز اور شخصیت میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پی سی بی کے سی ای او وسیم خان براہ راست بابر اعظم کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔بابر اعظم جو عام طور پر کم گو اور سیدھے سادھے دکھائی دیتے ہیں۔حقائق اس کے برعکس ہیں۔بابر اعظم سلیکشن کے معاملات میں خاص دلچسپی لیتے ہیں انہوں نے ہیڈ کوچ مصباح الحق پر واضع کردیا ہے کہ پاکستان ٹیم کے کم از کم پانچ کھلاڑیوں کو وہ مستقل ٹیم میں ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تا کہ انہیں وائٹ بال کے لئے تیار کرسکیں وہ ٹیم اگلے سال ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں شر کت کرے گی۔
بابر اعظم کو سب سے بڑا فائدہ یونس خان کی موجودگی میں ہوگا جنہیں پی سی بی نے دو سال کے لئے بیٹنگ کوچ بنادیا ہے۔یونس خان کی تقرری کم از کم آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2022 تک کے لیے کی گئی ہے۔اکتوبر/ نومبر 2022 میں آسٹریلیا میں شیڈول ایونٹ کا فائنل 13 نومبر کو کھیلا جائے گا ۔اس سے قبل یونس خان نے دورہ انگلینڈ میں بھی قومی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں تھیں ۔سابق کپتان اب دورہ نیوزی لینڈ میں بھی یہی کردار نبھائیں گے۔پاکستان کرکٹ ٹیم 23 نومبر کو نیوزی لینڈ کے لیے روانہ ہوگی۔
جب قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ مصروفیت نہیں ہوگی تو یونس خان حنیف محمد ہائی پرفارمنس سنٹر کراچی میں بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے کام کریں گے ۔ اس سلسلے میں نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر ایک مکمل پروگرام تشکیل دے گا۔ یونس خان نے 118 ٹیسٹ میچز میں 10099 جبکہ 265 ایک روزہ انٹر نیشنل میچز میں 7249 اور 25 ٹی ٹونٹی انٹر نیشنل میچز میں 442 رنز اسکور کئے ۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ 34 ٹیسٹ سنچریاں بنائیں ۔
ان کا بہترین اسکور 2009 میں کراچی میں سری لنکا کے خلاف 313 رنزتھا۔ یونس خان آئی سی سی مینز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2009 کی فاتح پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی تھے ،ایونٹ کے فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔
بابر اعظم اور یونس خان کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کا دورہ مصباح الحق کے لئے بھی اہم ہے۔مصباح الحق نے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے اپنی آخری ٹیم منتخب کر لی لیکن ہیڈ کوچ کی حیثیت سے ان کی کارکردگی پر کئی سوالات موجود ہیں۔35 رکنی ٹیم میں شامل نہ ہونے والے کھلاڑیوں میں سب سے اہم نام اسد شفیق کا ہے۔
ان کے علاوہ شعیب ملک اور محمد عامر بھی سلیکٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔اسد شفیق کافی عرصے سے پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور اپنے77 ٹیسٹ میچوں میں سے وہ مسلسل 72ٹیسٹ میچ کھیل چکے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کی کارکردگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے اور وہ بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے ہیں۔
انگلینڈ کے دورے میں وہ صرف67 رنز بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔اسی طرح شعیب ملک اور محمد عامر کی کارکردگی بھی غیرمتاثرکن رہی ہے۔ یہ دونوں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوچکے ہیں اور ان کی کرکٹ اب صرف محدود اوورز کے فارمیٹ پر مشتمل ہے تاہم چیف سلیکٹر مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اب نوجوان باصلاحیت کرکٹرز پر انحصار کیا جا رہا ہے جو مستقبل میں تینوں فارمیٹس میں کھیل سکیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصباح الحق نے شعیب ملک،محمد عامر اور اسد شفیق کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ہے یا وہ نیوزی لینڈ کے دورے کے نتیجے کے بعد ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس لے سکتے ہیں۔شعیب ملک کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ شعیب ملک کو شائد اب موقع نہ مل سکے۔لیکن جب فخر زمان کو زمبابوے کی سیریزکے تین میچوں میں45رنز بنانے پر لائف لائن مل سکتی ہے تو انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز میں 67رنز بنانے پراسد شفیق کو بھی موقع دیا جاسکتا تھا۔
نیوزی لینڈ کے دورے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ دانش عزیز نے حالیہ پاکستان کپ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ٹیم میں جگہ بنائی ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں انہوں نے سندھ کی طرف سے کے پی کے کے خلاف میچ میں ناقابل شکست 72 رنز ا سکور کیے تھے اور آخری گیند پر چھکا لگا کر اپنی ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا تھا۔ذیشان ملک 23 سالہ اوپننگ بیٹسمین ہیں جو پاکستان انڈر 19 کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
وہ 2016 سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں تاہم ان کی وجہ شہرت محدود اوورز کرکٹ میں جارحانہ بیٹنگ ہے۔ موجودہ سیزن میں انہوں نے پاکستان ٹی ٹوئنٹی کپ میں ناردن کی طرف سے کھیلتے ہوئے سندھ کے خلاف 84 اور 61 کی دو اچھی اننگز کھیل کر اپنی سلیکشن کا کیس مضبوط کیا ہے۔عمران بٹ 24 سال کے مڈل آرڈر بیٹسمین ہیں جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں دس سنچریاں سکور کر چکے ہیں جس میں 214 رنز کی اننگز بھی شامل ہے۔ اس سیزن میں وہ بلوچستان کی طرف سے فرسٹ کلاس میچوں میں 92 اور 53 رنز کی دو عمدہ اننگز کھیل چکے ہیں۔
روحیل نذیر وکٹ کیپر بیٹسمین ہیں جنھوں نے انڈر 19 کرکٹ میں پاکستان کی قیادت کی ہے۔ وہ انگلینڈ کے دورے میں بیک اپ کے طور پر شامل کیے گئے تھے تاہم اس بار مکمل طور پر وہ محمد رضوان اور سرفراز احمد کے ساتھ ا سکواڈ کا حصہ ہیں۔5 2سالہ فاسٹ بولر عماد بٹ 2016 میں پاکستانی ٹیم کے انگلینڈ کے دورے میں منتخب ہوئے تھے لیکن ایک بھی ٹی ٹوئنٹی نہیں کھیل پائے تھے۔
وہ 2014 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔پاکستان ٹیم میں عبداللہ شفیق بھی شامل ہیں جنھوں نے زمبابوے کے خلاف آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اپنے بین الاقوامی کیریئر کی ابتدا کی اور ناقابل شکست 41رنز ا سکور کیے تھے۔مصباح الحق اور بابر اعظم کے لئے نیوزی لینڈ کے دو ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل بے حد اہم ہوں گے۔
مصباح الحق کو کپتان کے ساتھ مل کر سخت اور غیر جانب دارانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔کیوں کہ پاکستان میں جس تیزی سے کپتان تبدیل ہوتے ہیں اسی تیزی سے کوچز کو تبدیل کرنے کی بھی روایت ہے۔