1970ء میں اداکار اور فلم ساز اعجاز درانی نے ’’ہیر رانجھا‘‘ کے نام سے ایک ایسی تاریخ ساز فلم بنائی، جس نے برصغیر کی فلمی تاریخ میں وارث شاہ کی ’’ہیر‘‘ کو زندہ جاوید بنا دیا تھا۔ فردوس اور اعجاز ’’ہیر رانجھا‘‘ بنے اور اجمل خان نے کیدو کا کردار ادا کیا۔ اعجاز کی یہ سپرہٹ کلاسیکل فلم قدیم لوک داستان ہیر رانجھا پر بننے والی پہلی کلر پنجابی فلم تھی۔
صدیوں پرانے اس قصّے کو فلمی تمثیل کے قالب میں فلموں کے معروف نغمہ نگار مصنّف احمد راہی نے اپنے اَدبی قلم سے ڈھالا، وہ اس حوالے سے وہ پہلے مصنّف تھے، جنہوں نے وارث شاہ کی ہیر کو فلم کے لیے نئے اُسلوب، بامعنی، اور نئی جدّت طرازی کے ساتھ قلم زَد کر کے اس کہانی کے ظاہری اور باطنی حُسن کو اس طرح سے نکھارا کہ آج یہ فلم اپنے اعلیٰ ترین اسکرین پلے، کہانی، برجستہ بامعنی مکالموں کے حوالے سے پنجابی کلاسیک سینما کی ایک سرتاج فلم کا اعزاز رکھتی ہے۔
اس داستان پر برصغیر پاک و ہند میں متعدد فلمیں بنائی گئیں، اسٹیج، ریڈیو اور ٹی وی پر ڈرامے بھی بنے۔ محبت کی اس عظیم داستان پر 1928ء میں پہلی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کے نام سے وکٹوریہ فاطمہ کمپنی نے بنائی۔ یہ وہ دور تھا، جب فلموں میں آواز نہیں تھی، خاموش فلموں کا دور تھا۔ اداکارہ زبیدہ نے ہیر اور اداکار جانی بابو نے ہیر رانجھا کے کردار کیے تھے۔ 1932ء میں لاہور میں بننے والی پہلی متکلم فلم کاردار نے بنائی۔
اس فلم میں اداکارہ انوری بیگم نے ہیر کا کردار کیا، جب کہ رانجھے کا کردار اپنے دور کے معروف موسیقار رفیق غزنوی نے کیا تھا۔ اور سینئر اداکار ایم اسمٰعیل نے کیدو کے کردار میں عمدہ اداکاری کرکے خوب شہرت پائی تھی۔ پاکستان میں پہلی بار اس موضوع پر 1955ء میں فلم ساز جے سی آنند نے پنجابی فلم ’’ہیر‘‘ بنائی، جس کے ہدایت کار نذیر تھے۔
اداکارہ سورن لتا نے ہیر کا کردار کیا تھا۔ ان کے مدمقابل عنایت حسین بھٹی نے رانجھا کا کردار کیا۔ 1965ء میں ہدایت کار جعفر بخاری نے ہیر سیال کے نام سے پنجابی فلم بنائی۔ ہیر مذکورہ فلم اس سلسلے کی تیسری فلم تھی، جو پاکستانی باکس آفس پر 19؍ جون 1970ء کو لاہور کے نگینہ سینما پر پیش کی گئی، جب کہ کراچی میں اس کی نمائش 7 اگست 1970ء مرکزی سینما کوہِ نور میں ہوئی تھی۔ ہدایت کار مسعود پرویز نے اپنے تخلیقی ذہن کا پورا نچوڑ اس فلم میں پیش کیا۔
وارث شاہ کی ہیر کو ہم میں سے کسی نے نہیں دیکھا، مگر احمد راہی کی تحریر، مسعود پرویز کا تخلیق کردہ ہیر کا کردار اداکارہ فردوس کی صورت میں دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ وارث شاہ کی ہیر فردوس سے زیادہ خُوب صورت کیا ہوگی۔ فردوس نے اپنی لازوال کردار نگاری سے اس افسانوی کردار کو حقیقت کے سانچے میں کچھ اس طرح سے ڈھالا ہے کہ دُنیا نے فردوس کی شکل میں ’’ہیر‘‘ کو دیکھ لیا۔ رانجھا اس کہانی کا دُوسرا اہم کردار تھا۔
یہ ایک پیچیدہ اور مشکل کردار تھا، جسے اداکار اعجاز نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور پھر ایسے نیچرل انداز میں ادا کیا کہ اصل رانجھے کا تصوّر ہی اب اُن کی شکل میں نظر آیا۔ اس کردار کے کئی متضاد جُز سامنے آتے ہیں۔ فلم کے شروع میں وہ ایک لااُبالی، اَکھڑ، شرارتی کے رُوپ میں نظر آتا ہے، جو سارا دن گائوں کے پنگھٹ پر بیٹھ کر دوستوں کےساتھ بانسری بجاتا ہے اور گپیں مارتا ہے۔ اعجاز نے بہ طور فلم ساز اور رانجھا کے لافانی کردار میں اپنے منصب اور کردار کو بڑی ذمے داری اور عمدہ کردار نگاری سے انجام دیا۔ وارث شاہ کے رانجھے کا جب تصوّر آئے گا اداکار اعجاز کی صورت نگاہوں کے سامنے آئے گی۔
کیدو اس کہانی کا وہ کردار ہے، جس کی نفرت اور چالوں نے ’’ہیر رانجھا‘‘ کی محبت کو رہتی دُنیا تک آج بھی زندہ کیا ہوا ہے۔ کیدو کا کردار سینئر اداکار اجمل خان مرحوم نے کیا تھا۔ کیدو جو ہیر کا چچا تھا ،اور انسانی شکل میں ایک شیطان نما مکروہ چہرہ تھا۔ اجمل نے اپنے فن سے کیدو کے کردار میں ایسے رنگ بھرے جو کبھی پھیکے نہیں پڑیں گے۔
شہنشاہ ظرافت منور ظریف مرحوم نے اس فلم میں ہیر کے نام نہاد شوہر کھیڑے کے کردار میں دل کش مزاحیہ کردار نگاری پیش کر کے فلم بینوں کو خوب ہنسایا۔ اداکارہ زمرد نے سہتی کا یادگار کردار ادا کیا جو ہیر کی نند اور کھیڑے کی بہن کا تھا۔ فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ میں مراد بلوچ کا کردار پہلے پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اور ہیرو یوسف خان ادا کر رہے تھے۔
اپنے مختصر کردار کی وجہ سے وہ اس فلم کی کاسٹ سے علیحدہ ہوگئے اور پھر اس کردار کے لیے عقیل کو شامل کیا گیا۔ منور ظریف کے علاوہ رنگیلا اور زلفی نے بھی اپنے مختصر مزاحیہ کرداروں میں لاجواب اداکاری پیش کی۔ اداکارہ سلمیٰ ممتاز اور اداکار نجم الحسن نے ہیر کے ماں باپ کے کردار کیے۔ سینئر اداکار گل زمان نے کھیڑے کے باپ کا کردار نبھایا۔ اداکار الیاس کاشمیری نے بطور مہمان اداکار ہندو راجہ کا کردار کیا۔
فلم کو شہرئہ آفاق سطح پر متعارف کروانے میں اس فلم کی موسیقی اور گیتوں کا بھی بڑا اہم کرداررہا، جس کا تمام تر سہرا موسیقار خواجہ خورشید انور، نغمہ نگار احمد راہی اور ملکۂ ترنّم نورجہاں کے سر جاتا ہے۔ یہ تینوں فن کاروں کے فنّی کیریئر کا یہ ایک حسین اور یادگار سنگم ہے۔ خواجہ صاحب کے سازوں نے ایسے گیتوں کو سماعتوں سے ہمکنار کیا، جن کی رسیلی اور شیریں دُھنوں نے مٹھاس و سکون کے ایسے رَس گھولے، جو آج تک ان گیتوں میں موجود ہیں۔
فلم کے گیتوں کی گائیکی جسے ملکۂ ترنّم نور جہاں نے ادا کی، ان کی آواز اور ترنّم ریزی کے بارے میں گیتوں کے خالق شاعر احمد راہی کہتے تھے ’’اگر میڈم نورجہاں نہ ہوتیں، تو بے شمار فلمی گیت خواہ شاعری کے اعتبار سے وہ بہت اعلیٰ تھے، مگر انہیں وہ لازوال شہرت نہ ملتی جو آج نورجہاں کی مترنّم آواز سے ملی‘‘۔ نورجہاں کی گائیکی نے اس فلم کو اپنی آواز کے ذریعے ایک ایسی خوب صورت کلاسیک فلم بنا دیا تھا، جس کی نظیر برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ’’سُن ونجھلی دی مٹھری تان وے۔ میں تاں ہو ہو گئی قربان‘‘،تو گویا ایک سماع سا پیدا ہو جاتا ہے۔ ملکۂ ترنّم نورجہاں اور منیر حسین کی آواز میں یہ دوگانا ’او ونجھلی والڑیاں‘‘ کی تازگی اور حُسن آج بھی برقرار ہے۔ ہے۔
فلم کے حُسن کو چار چاند لگانے میں آرٹ ڈائریکٹر کے کام کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اس فلم کے تمام سیٹ آرٹ ڈائریکٹر حبیب علی شاہ نے نہایت ہنرمندی سے لگائے۔ فلم ساز اعجاز درانی نے اس سلسلے میں بڑی فراخ دِلی سے وہ تمام سامان انہیں مہیا کیا، جو ان کے کام کے لیے ضروری تھا۔ فلم کے رقص بھی بے حد سادگی پر مشتمل تھے، جن کے لیے حمید چوہدری نے بہت اچھی ہدایات دیں۔ فلم کے پروڈکشن کنٹرولر طاہر رضوی نے اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ ذمے داری سے ایک اچھی فلم بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
فردوس، زمرد کے بالوں کا قدرتی انداز میں اسٹائل دینے کے لیے ہیئر اسٹائل سخی سرور نے بھی قابل تعریف کام کیا۔ فلم کی کہانی پنجاب کی تاریخ و ثقافت کا اَدبی ورثہ بن گئی۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو فلم ساز اعجاز درانی پر فخر ہے، جس نے ’’ہیر رانجھا‘‘ جیسی خُوب صورت کلاسیکل رومانی فلم بنائی، جو آج تک بالی وڈ بھی نہیں بنا سکا۔