• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مٹی اور گھاس کے گارے سے بنے گھر ’’چونئرے‘‘

صحرائے تھر کے دیہات کی خوبصورت عکاسی و منظر نگاری تھری چونئروں (جھونپڑوں) کی مرہون منت ہے۔ یہاں تقریباً 23سو دیہات ہیں ، جن میں لاکھوں چونئرے، اس خطے کی پہچان ہیں۔ تھر کا ہر باسی اپنے اور اپنے اہل خانہ کی رہائش کے لیے اپناچونئرا خود بنا تا ہے۔ گھاس اور مٹی کے گارے سے بنی اس عمارت کا نصف حصہ مرد اور نصف خواتین بناتی ہیں۔ 

بنیادی ڈھانچے کے لیے دیہی عورتیں گاؤں کے مخصوص علاقے سے سخت مٹی کاانتخاب کرتی ہیں ،جس کے بعد گوندھ کراس سے اینٹیں تیار کرتی ہیں۔ ان کے سوکھنے کے بعد گول دائر ہ نما دیوار کھڑی کی جاتی ہے، جس کی بلندی پانچ فٹ اور گولائی 20سے 30 اسکوائرفٹ ہوتی ہے۔ ان کا تعمیر کردہ چونئرا کچی اینٹوں اور گارے سے مکمل ہوتا ہے۔

درمیان میں ایک دروازہ بنایا جاتا ہے اور باقی دو نوں اطراف میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس کی چھت بھی اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ہوا کا گزر باآسانی ہوسکے، اس لیے اکثر جوئنڑوں میں کھڑکیاں برائے نام ہی نکالی جاتی ہیں۔ دیوار کے آخری حصہ پر چار انچ کا گول شیلف بھی بنایا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں ’’آلڑہ ‘‘کہا جاتا ہے ۔یہ مختلف چھوٹی بڑی اشیاء کورکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے سرمے دانی ،چھوٹا آئینہ ،تیل کی شیشی،دستکاری کا سامان یا اس میں گھر کے برتن بھی سجائے جاتے ہیں۔

بالائی حصے کی چھت کی تعمیر تکونی شکل میں جاتی ہے ۔ لکڑیوں کو اوپر سے جوڑنے کے لیے سانچا تیار کیا جاتا ہے، جس کو’’ مکڑہ ‘‘کہتے ہیں۔ چونئرے میں بارہ لکڑیا ںستون کی طور استعمال ہوتی ہیں۔ مکڑہ میں چھ سوراخ کیے جاتے ہیں، باقی چھ لکڑیوں کو اطراف کی سپورٹ کےطور پر لگایا جاتا ہے، تاکہ اوپر اس سانچہ کا توازن برقرار رہ سکے ۔

اکثر لوگ چونئر ےکی چھت کے ایک فٹ کے خلاء میں آر سی یعنی شیشہ بھی لگا تے ہیں ،جس سے اس کی خوب صورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ان مراحل سے گزرنے کے بعدچھت پر مضبوط قسم کی لکڑی کا جال بنایاجا تا ہے اور انہیں ’’کھپ‘‘ نامی جھاڑیوں سے بنی رسی سے پرویا جاتا ہے۔

آخر میں گھاس کے تنکوں کو کاٹ کر سیدھی سطح میں لایا جاتا ہے جس کے بعداسے چاروں طرف سے مکمل طور پر ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ نئے بننے والے چونئرے کو دو سے تین تہہ دیئے جاتے ہیں ۔جس کو نیچے دیوار تک لے جانے کے بعد چھتری کی شکل میں کاٹ کر مزید بہتری لائی جاتی ہے، تاکہ بارش کا پانی دیوار پر لگنے کے بجائے چھت سے نیچے بہہ جائے۔

عام طور پر ہر گھر میں دو سے تین چونئرے بنائے جاتے ہیں، یہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے شہری علاقوں کے گھروں میں کمرے بنائے جاتے ہیں۔ کچن کی طور استعمال ہونے والے چونئرے کے علاوہ باقی چونئرے میں خاندان کے افراد رہتےہیں ۔

اس میں کھانا پکانے کے لیےایک کونے میں چولہا اور بستر رکھنے کے لیے بھی صندوق کی طرح مٹی کی الماری بنائی جاتی ہے، جسے تھری زبان میں’’ پیھی یا ڈھانچی ‘‘کہتے ہیں۔ اس کا بالائی حصہ بستر رکھنے اور اندرونی حصہ گھر کے برتن وغیرہ رکھنے کے کام میں لایا جاتا ہے، یوں گھاس اور مٹی سے بنی یہ عمارت تھری باشندوں کے لیے مکمل سہولتوں سے آراستہ رہائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان چونئروں کی دیواروں پر ایک سے دو فٹ کا کچا کٹہرہ لگا کر مٹی سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔

دیواروں پر نقش و نگاربنانے کے لیے گاؤں کی ماہر خواتین کی بھی مدد لی جاتی ہے۔یہ چونئرے جن کی تعمیر میں گھاس استعمال کی جاتی ہے،بارش ہونےسے قبل سبزرنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ بارش ہونے کے بعد ان کی چھت پر لگی گھاس کالی ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے گاؤں پر نظر ڈالی جائے ، تو سرخ ریتیلے ٹیلوں کے درمیان بنے سیکڑوں بلند و بالا چونئرے ایک سے نظر آتے ہیں ۔

چونئروں کے اندر بستر پر لیٹنے یا بیٹھنے کے دوران چھت کی طرف دیکھا جائے تو گھاس کے تنکوں کے سے ڈھکی چھت کے سوراخوں سے آسمان تاروں کی طرح نظر آتا ہے، مگر یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ان سوراخوں سے بارش کے پانی کا ایک قطرہ بھی اندر نہیں آتا۔ 

ٹھنڈی چھاؤں کے ساتھ ہوادار چونئرے صحرا میں گرمیوں کے دوران کسی ایئرکنڈیشنڈ گھروں سے کم نہیں لگتے، لیکن سردیوں میں ان کا اندرونی ماحول انتہائی یخ بستہ ہوتا ہے۔ سردی سے محفوظ رہنے کے لیے مکین مٹی کی انگیٹھیوں میں آگ جلا کر اسے گرم رکھتے ہیں۔ صدیوں قبل تھرکے باسیوں نے اپنی رہائش کے لیے چونئرے بنانے شروع کیے، جود یہی فن تعمیر کا انتہائی اعلیٰ نمونہ ہیں اور تھر کی ثقافت کی پہچان ہیں۔

تازہ ترین