پاکستان میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور ہر چیز digitalize ہو رہی ہے۔ اسی طرح سائبر کرائم کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔کورونا کے دوران بینکوں سمیت کئی اداروں نے آن لائن سروس کو ترجیح دی، جس کی وجہ سے سائبر کرائم کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح انٹرنیشنل این جی اوز کے نام پر صارف سے رابطہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں چیریٹی کرنا چاہتے ہیں یا اسپتال کے لیے مشینیں بھیجنا چاہتے ہیں،جب صارف ان کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہو جاتا ہے تو اسے ایف آئی اے اور کسٹم کا نمائندہ بن کر کال کی جاتی ہے کہ آپ کا کنسائمنٹ ائیر پورٹ یا بندرگاہ پر موجود ہے، پیسے دے کر اسے کلئیر کروالیں، پیسے ادا کر کے جب صارف وہاں پہنچتا ہے، تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو ایسا کوئی کنسائمنٹ موجود ہی نہیں ہے، اسی طرح او ایل ایکس،ایزی پیسہ فراڈ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور جیتو پاکستان کے نام پر صارفین کو لوٹا جا رہا ہے۔
گزشتہ دِنوں کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام فنانشل اینڈسائبر کرائم رپورٹنگ کے حوالے سے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیاگیا، ورکشاپ میں فنانشل اینڈسائبر کرائم، سوشل میڈیا کرائم، بینکنگ فراڈ، موبائل فون سیفٹی ٹولز اور دیگر موضوعات پر آگاہی دی گئی۔
ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد احمد زعیم نے بتایا کہ سائبر کرائم کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔ موبائل ہیکنگ، انٹر نیٹ کرائم، آن لائن بینکنگ سے جڑے فراڈ اور دیگر کمپیوٹر کی مدد سے کیے جانے والے جرائم دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ ورکشاپ میں واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی احتیاطی تدابیر کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں، غیر ضروری اپیلکیشن سافٹ وئیر کو موبائل فون میں انسٹال کرنے سے گریز کریں اور خاص کر خواتین اپنے انفرادی تصاویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے گریز کریں۔
آن لائن ہراسانی ایکٹ آچکا ہے۔ اب ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون تیار ہو رہا ہے۔ ابھی اس قانون میں بھی کام کی ضرورت ہے، کیوں کہ ٹیکنالوجی مستقل آگے بڑھتی جارہی ہے،ہمارے ابھی تک سماجی رابطوں کے اداروں سے معاہدے نہیں ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ ہم نے ای کامرس کو اپنا تو لیا ہے، مگر اس کا شعور نہیں دیا گیا۔سِم کی معلومات کے حوالے سے پی ٹی اے ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا ہے۔ سائبر کرائم کے حوالے سے ایف آئی اے2007سے کام کررہی ہے۔
ملک بھر میں اس وقت15تھانے قائم ہیں۔ سائبر کرائم کی سب سے زیادہ شکایات کراچی میں کی جاتی ہیں، جب کہ لاہور دوسرے نمبر پر ہے۔ایف آئی اے کا سائبر کرائم کا واحد شعبہ ہے، جو اس وقت 80ہزار سے زائد شکایات پر کام کررہا ہے۔ہم اپنے وسائل کو بڑھارہے ہیں اور کوشش ہے کہ شکایت کا جلد سے جلد تدارک ہو سکے۔خواتین کی تصاویر کے حوالے سے ہم نے کئی کیسز کو محض چند گھنٹوں میں حل کیا ہے۔کچھ کیسز میں ریکارڈ منگوانے میں وقت لگتا ہے،خاص طور پر فیس بک اور واٹس ایپ سے معلومات آنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔لوگ اس تاخیر پر ناراض ہوتے ہیں۔ہمارا ٹوئٹر اکاؤنٹ فعال ہے۔
فیک پروفائل کیسز بھی بہت آتے ہیں۔ جرائم سے بچنے کے لیے عوام کو محتاط رہنا ہوگا۔آپ کا فیس بک پروفائل سکیورٹی کے ٹول کو پورا کرتا ہے، تو آپ قدرے محفوظ ہیں۔اپنی آئی ڈی کو فون سے کنٹرول میں رکھیں۔اگر آپ کا فیس بک پروفائل ہیک ہوا ہے، تو فیس بک ازخود شکایت کو جلدی حل کرسکتا ہے۔ براہ راست رابطہ کرنے پر ان کی ایس او پی بہت بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ فیس بک کی اپنی گائڈلائنز ہیں۔ مالی معاملات میں سائبر کرائم کو قابو کرنے میں مشکلات ہیں۔ایس او پی کو فالو کرنا ہوگا۔ضروری ہے کہ سائبر کرائم کا تفتیشی افسر متعلقہ فیلڈ کی تکنیکی مہارت بھی رکھتا ہو۔ سائبر کرائم سرحدوں سے ماورا ہے۔
سائبر سیکیورٹی کے لیے حوآلہ استعمال ہو اس کو تحفظ دینا آپ کا کام ہے۔بینک بھی آن لائن ٹرانزیکشن کروا رہے ہیں۔ اپنے مالی معاملات کو اگر آپ فون یا کمپیوٹر سے ڈیل کرتے ہیں، تو بھر پور احتیاط کی ضرورت ہے۔ عوام میں اس حوالے سے شعور کی تاحال کمی ہے۔ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹرعبد الغفار نے کہا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل میں شکایات درج کرانے کے لیے آن لائن پوٹل پر کال کی جاتی ،پھر اس کی تصدیق کے لیے دفتر آنا پڑتا ہے، پھر دستیاب شواہد کی روشنی میں تفتیش اور مسئلہ کے حل کی کوشش کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔سائبر کرائم ہر وہ جرم ہے، جس میں الیکٹرانک گیجٹ انٹرنیٹ کے سہارے استعمال ہو۔ کسی کا موبائل اسکریچ کارڈ بھی کہیں اور چارج ہوا تو بھی وہ سائبر کرائم سے امید لگا تا ہے اور اگر کسی کے کے کروڑوں روپے چوری ہوئےہوں، تو وہ بھی ہماری طرف دیکھتا ہے۔
ہم کسی کو منع نہیں کرتے ہیں۔سائبر کی ترتیب میں آنے والا ہر جرم ہمارے دائرے میں ہے۔بینک اسلامی کے سیکیورٹی بریچ سے 90 منٹ میں 6.1 ملین ڈالر پاکستان سے باہر نکل گئے۔کورونا کے دوران 8000 شکایات توحبیب بینک لے آیا۔طرح طرح کے جرائم ہیں، جو ہمارے اطراف گھرے گیجٹس کی بدولت انجام پاتے ہیں۔ای کامرس کو اپنا تو لیا گیا ہے ، مگر اس کا شعور نہیں دیا گیا۔یو فون، جیز ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھل گئے، مگر ایس او پیز پر کام نہیں کیا جاتا ہے۔ سائبر کرائم والے ممالک میں امریکا اور چین سر فہرست ہیں۔ سال 2018 میں دو ہزار 545 ، سال 2019 میں 4 ہزار 304 اور 2020 میں اب تک 10 ہزار سے زائد سائبر کرائم کی شکایت رجسٹر ہو چکی ہیں۔