• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس کے لہجے میں تیقن بھی تھا، تاثیر بھی تھی

اُس کی آنکھوں میں جہاں خواب تھے، تعبیر بھی تھی

وہ نہ ہوتا تو یہ جنت نہیں مل سکتی تھی

اُس کی تقدیر میں شامل مری تقدیر بھی تھی

کل بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش ہے۔ کل ہمارے مسیحی ہم وطن اپنی عید، کرسمس بھی منائیں گے۔ پاکستان میں آباد تمام مسیحی بہن بھائیوں کو کرسمس مبارک۔ قائداعظم نے بار بار مسلمان اکثریت پر زور دیا تھا کہ وہ ہندو، عیسائی اور سکھ سب برادریوں کے حقوق کا احترام کریں۔ بحیثیت پاکستانی شہری سب ایک ہیں مگر جس طرح قائداعظم کے دیگر ارشادات پر عملدرآمد نہیں ہوا، اِس ضمن میں بھی آتی جاتی حکومتوں نے خیال نہیں کیا۔ پاکستان کی تعمیر، معاشرے کی تشکیل اور ملک کے دفاع میں مسیحی برادری کا بہت اہم حصّہ ہے۔ ہمارے اعظم معراج اِس سلسلے میں ایک عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اُن کی کتابوں میں تمام اعداد و شُمار ملتے ہیں۔ عبدالحسیب خان بھی قائداعظم کے افکار کے عاشق ہیں۔ وہ قائداعظم کے علاوہ کسی کو اپنا قائد تسلیم نہیں کرتے۔

میری ایک دو روز پہلے ہی سید فاروق حسن سے ملاقات ہوئی۔ وہ ماشاء اللہ زندگی کی 89بہاریں، خزائیں دیکھ چکے ہیں۔ اب بھی متحرک اور فعال۔ پاکستان کے اُن چند ایک خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ اپنی یادوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ دہلی میں اُن کے والد محترم سید ابو الحسن کی رہائش گاہ پر ہندوستان کے مختلف علاقوں کے آنے والے بانیانِ پاکستان قیام کرتے تھے۔ فاروق حسن خوش قسمت ہیں کہ اُنہیں اُن عظیم ہستیوں کی گفتگو سننے کا موقع ملتا تھا۔ اُنہیں فخر ہے کہ وہ ’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘ کے نعرے بلند کرنے والے جلوسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ قائداعظم اور قیامِ پاکستان سے متعلق اُن کے پاس تاریخی حقائق کا انمول ذخیرہ ہے۔ جسے متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ محفوظ کر لیں۔

آج میں قائداعظم کی بلوچستان سے خصوصی دلچسپی اور عشق کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ شروع میں جو قطعہ میں نے قلمبند کیا۔ وہ میرے دل کی گہرائیوں میں موجود قائداعظم سے وابستہ عقیدتوں کا اظہار ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے ایک سال میں ہی اُنہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں مختلف مقامات پر جو خطبات ارشاد کیے، پیغامات دیے، اُن میں وہ سب ہدایات اور رہنما خطوط موجود ہیں جن سے اُس معاشرے کی تعمیر ہو سکتی ہے جسے قائداعظم کا معاشرہ کہا جا سکتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف یونیورسٹیوں کو مختلف موضوعات دے کر ایک مبسوط اور منظم دستاویز تیار کروائیں۔ جس میں آج کے تناظر میں، آج کے مسائل کا حل قائداعظم کے افکار کی روشنی میں عملی طور پر مل سکے۔ قائداعظم نے 15جون 1948بلدیہ کوئٹہ کے شہری سپاسنامے کے جواب میں کہا تھا کہ مجھے بلوچستان کے ساتھ خصوصی دلچسپی ہے۔ کیونکہ یہ میری خصوصی ذمہ داری میں آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے معاملات میں کسی دوسرے صوبے کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کرے لیکن طویل عرصے تک نظر انداز رہنے کے نشانات کو مٹانے میں کچھ وقت لگے گا۔

قائداعظم کی روح کتنی بےچین ہوتی ہوگی کہ اُس کے بعد بھی بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اُس سے پہلے 14فروری 1948کو سبّی میں بلوچستان کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ یقین ظاہر کیا کہ ’’آپ بلوچستان کو عظیم بنائیں گے، مجھے علم ہے کہ بلوچستان میں زبردست امکانات موجود ہیں‘‘۔ افسوس کہ اِن امکانات کو آنے والی فوجی اور سیاسی حکومتوں نے اہمیت نہیں دی اور بلوچستان کے وسائل اور امکانات بلوچستان کے شہریوں کو سکون اور خوشحالی فراہم نہ کر سکے۔ بلوچستان کی گراں قدر معدنی دولت کا بھی بانیٔ پاکستان کو مکمل احساس تھا۔ کوئٹہ میں پارسی برادری کے سپاسنامے کے جواب میں 13جون 1948کو اُنہوں نے بہت ہی تفصیل سے بلوچستان کو پاکستان کا مستقبل قرار دیا تھا۔ اور کہا: ’’بلوچستان کی ترقی کے سلسلے میں میرے پاس بہت سی اطلاعات ہیں۔ ہم لوگ اس معاملے کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی معدنی دولت اس کی زراعت۔ آب رسانی اور مواصلات کے وسائل کی ترقی کے زبردست امکانات ہیں‘‘۔

آپ اگر اِن فرمودات کا تجزیہ کریں تو یہ احساس ہوگا کہ آنے والے خدشات کا احساس قائداعظم کو کس درجے تھا۔ بلوچستان کو اِس وقت ایک خصوصی حیثیت دے کر اُسے گورنر جنرل کے ماتحت کیا گیا۔ گورنر جنرل نے ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی۔ 15فروری 1948کو صحافیوں کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کل سبّی دربار میں جن اصلاحات کا اعلان کیا ہے، اُن کے تحت بلوچستان کو گورنر جنرل کا صوبہ کیوں بنایا گیا۔ کیا آپ آمریت کے حق میں ہیں۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ اِس طرح بہتر رہے گا۔ بھرپور پارلیمانی مباحث کے معمول کی نسبت معاملات زیادہ تیزی سے نمٹائے جا سکیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آمریت کے حق میں ہوں‘‘۔ پھر اُنہوں نے مزید یقین دلایا کہ ’’میرا دل۔ میری روح اور میری دھڑکن مجھے یقین دلاتی ہیں کہ یہ موجودہ حالات میں بلوچستان کیلئے بہت مفید ثابت ہوں گی۔ اِس اصلاحی اقدام کے دو سبب ہیں۔ میں ہر ممکن طریقے سے بلوچستان کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ کام کہیں زیادہ جلدی ہوں گے‘‘۔

میں تو قائداعظم کی تقاریر میں بلوچستان سے ان کی خصوصی محبت تلاش کررہا ہوں۔ اُس کے بعد اُن کی آرزوئوں اور تمنائوں پر کیا گزری۔ ہمارے محترم ڈاکٹر صفدر محمود اِس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ قائداعظم کے نام پر قائم ادارے تحقیق کرکے بتا سکتے ہیں کہ یہ مشاورتی کونسل کب بنی۔ کب تک قائم رہی۔ کیا قائداعظم کے دل کی دھڑکنیں آنے والے گورنر جنرلوں نے بھی محسوس کیں۔ بلوچستان پاکستان کی جان ہے۔ وہاں رہنے والے بلوچ اور پشتون صدیوں کے امین ہیں۔ اُن کی روایات اور اصول پرستی ہماری طاقت بن سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین