راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
(فیض)
ہم نے کیا پوری دنیا نے دیکھ لیا وہ الگ بات ہے کہ کسی نے نظریں ملاکر دیکھا اور کسی نے نظریں بچا کر دیکھا۔ موصوف نے بھی سب کو نظریں چرا کر دیکھ لیا ،مگر کچھ ہو نہیں سکتا یہاں روایت نہیں ہے خود گھر جانے کا رواج نہیں ہے۔ یہاں قوم کی خدمت کاجذبہ حکمرانوں کو اقتدار سے الگ ہونے نہیں دیتا اور خاص طور پر جو حکمران اقدار کا خیال کرتے ہوں ان کے لئے اقتدار سے الگ ہونا خاصا مشکل اور کٹھن کام ہے پارلیمانی کمیٹیاں وزیراعظم کا کیا احتساب کریں گی۔ وہ تو اپنا حساب نہیں کرسکتیں ۔ جنرل راحیل شریف صاحب نے کرپشن کی صفائی کا آغاز اپنے محکمے سے کیا ہے اور لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل اور بریگیڈ یئر کے عہدوں پر فائز افراد کوجرم ثابت ہونے پر اتنی کڑی سزا دی ہے کہ اب وہ اپنی باقی ماندہ زندگی سویلین کی حیثیت سے گزاریں گے اور اپنے ناموں کے ساتھ اپنے وہ عہدے نہیں لکھ سکیں گے جو انہوں نے زندگی بھر کی محنت سے کمائے تھے اب وہ ان تمام مراعات سے بھی محروم ہوگئے جو فوجیوں کو ریٹائرمنٹ کے وقت ملتی ہیں جس میں پلاٹ ، فلیٹ اور مالی مراعات شامل ہوتی ہیں۔ یہ بہت کڑا فیصلہ تھا جو جنرل راحیل شریف نے کیا اس فیصلے سے کرپٹ سیاستدانوں میں سراسیمگی اور خوف پھیل گیا ہے اب انہیں اپنے کرتوت اور ہونے والے فیصلے دیوار پر لکھے نظر آنے لگے ہیں۔ اب عزیربلوچ بیان دے یا کوئی اور اب کرپشن کی داستانیں فائلوں کی زینت نہیں بنیں گی اور ان کا حشر سابقہ ریفرنسوں والا نہیں ہوگا میرا تو ایک دفعہ اور مشورہ ہے کہ کرپشن کے کیس جے آئی ٹی کے بعد فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں ۔ انکا بھی90دن کا ریمانڈ لیکر تما م لو ٹی ہوئی دولت سکون اور اطمینان سے برآمد کی جائے اور قومی خزانے میں جمع کروائی جائے۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہا ںتک پہنچے۔ فوج میں کرپٹ افراد کی نشاندہی، ٹرائل اور سزا سے متعلق خبر کو پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ہے، لوگ جنرل راحیل شریف کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور خصوصی طور پر دو روز قبل ہی جنرل صاحب نے کرپشن کے خلاف بڑی زوردار تقریر کی تھی وہ تقریر ہی کرپٹ سیاستدانوں کو دہلانے کے لئے کافی تھی کہ اس پر فوجیوں کی سزائیں اور رینک ختم کرنے کا فیصلہ آگیا اس فیصلے نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ، اب آپ دیکھئے گا اگلے چند دنوں میں بہت سے کرپٹ سیاستدان اور سرکاری افسران ملک سے باہر روانہ ہونے کی کوششیں کریں گے ۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگ باقاعدہ پروٹوکول لیکر ملک سے باہر جاچکے ہیں۔اور اب شاید وہ ریڈوارنٹ پر ہی ملک واپس آئیں گے ۔دبئی سے تو ہماری پولیس اور ایف آئی اے لوگوں کو پکڑ کر واپس پاکستان لے آئی ہے مگر لندن کے ساتھ ہماری کوئی ملزمان کے تبادلے کا ٹریٹی( معاہدہ)نہیں ہے لہذا لندن سے لوگوں کا لانا مشکل ہوگا پچھلے دور میں بھی تمام کرپٹ عناصر لندن میں جمع تھے اور این آر او کے آتے ہی رضا کارانہ طور پر جوق درجوق پاکستان چلے آئے اب کچھ لوگ پھر بھاگنے کے چکر میں ہیں اور کچھ تو بھاگ بھی چکے ہیں خیر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کسی وقت تو چھری کے نیچے آنا ہی ہے ۔ میں یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ جمعرات کے روز جب الیکٹرونک میڈیا پر کرپٹ فوجی افسران کو سزائیں سنانے کی خبر ریلیز ہوئی توعوام میںخوشی کی لہر دوڑ گئی اور عوام نے اطمینان کا اظہار کیا مگر خوشی کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ اب اگلی باری کرپٹ سیاستدانوں کی گرفتاری، جے آئی ٹی اور پھر قوم کی لوٹی ہوئی رقم کی برآمدگی کی ہے۔ اس سے پہلے دہشت گردوں کی گرفتاریوں کے بعد ہر روز پریس ریلیز آتی تھیں کہ فلاں آدمی نے100قتل کا اعتراف کرلیا ہے اور فلاں ٹارگٹ کلر39قتل مان گیا ہے یہ خبریں اخبارات کی زینت بن کر دفن ہوگئیں اور عوام نے کوئی نتیجہ نہیں دیکھا۔ شاید لوگوں میں اب صبر کامادہ ختم ہوگیا ہے اور انتظار کرنے کی ہمت باقی نہیں رہی سچی بات ہے لوگ دہشت گردوں کی گرفتاریوں سے خوش تھے مگر پھر اسکے بعد ہونے والی مکمل خاموشی سے نالاں ہیں اور کبھی کبھی مایوسی کی باتیں کرتے ہیں مجھے قوی امید ہے کہ اس دفعہ قوم کو مایوسی نہیں ہوگی اور گرفتاریوں کے بعد کارروائی سے عوام کو آگاہ رکھا جائے گا آپ کو یاد ہوگا کہ ضیاالحق کے زمانے میں کچھ ملزموں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی اور کچھ کو ٹکٹکی پر باندھ کر پبلک مقامات پر کوڑے لگائے گئے تھے ۔ اگرچہ ہمارے قانونی ماہرین اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں نے اسے بہیمانہ سلوک قرار دیا احتجاج بھی کئے اور تحفظات بھی ظاہر کئے مگر دوسری طرف آپ کو یاد ہوگا کہ عوام کا جم غفیران سزائوں پر اطلاق ہوتے ہوئے دیکھنے کے لئے، اسٹیڈیم اور دوسرے پبلک مقامات پرجمع ہوتا تھا۔ اور عوام نعرے لگاتے تھےہمیں بھول جانے کی عادت ہے ان باتوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف انہی باتوں کو یادرکھتے ہیں جنہیں مورخ اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر حاکموں کی خوشنودی کے لئے لکھتا ہے لوگ کوڑے لگتے ہوئے جوق درجوق دیکھنے جاتے تھے اور پھر خراج تحسین پیش کرنے یا داد دینے کے لئے نعرے بھی لگاتے تھے انسان کی فطرت ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ ظلم ہوتا دیکھ کرخوش اور مطمئن ہوتا ہے ظالم کے ساتھ جب سخت سلوک کیا جائے تو وہ ظلم نہیں ہوتا وہ انصاف ہوتا ہے آخر میں علامہ اقبال کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ دامن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن