نیوزی لینڈ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بدترین شکست کے ساتھ ملک بھر میں شائقین شدید ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔سوشل میڈیا پر نت نئے اور دلجلے تبصرے ہورہے ہیں۔ عام لوگ ٹیم کی کارکردگی کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے ناخوش ہیں دوسری جانب سابق کرکٹرز رمیز راجا،عاقب جاوید اور شعیب اختر بھی سخت ناراض ہیں۔کوئی مصباح الحق اور وقار یونس کو کوچ ماننے کے لئے تیار نہیں ، کسی کا کہنا ہے کہ ہار تو مقدر تھی صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ ٹیم کتنے دن میں ہارتی ہے ،کسی کی رائے ہے کہ پاکستانی ٹیم تاریخ کے بدترین دورسے نچلے لیول کی کرکٹ کھیل رہی ہے۔
ٹیسٹ سیریز میں دونوں میچ ہارنے کے دوران ٹیسٹ کرکٹرز بھی دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں ۔اسی شو ر شرابے میں خاموشی سے ڈوریاں ہلانے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ان پر بھی لوگوں کی نظریں ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کچھ کرکٹرز محب وطن ہیں اور بعض کھلاڑی اپنے بڑے مقام، مرتبے اور تعلقات کی وجہ سے خاموشی سے اسٹروکس کھیل رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں کچھ بھی ہوجائےہر کوئی احسان مانی اور وسیم خان یا بورڈ حکام کو ہدف تنقید بناتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ احسان مانی اور وسیم خان کو یقینی ذمے دار ہونا چاہیے لیکن اہم حکومتی شخصیت سے تعلق کی وجہ سے ایک کرکٹر ہی گذشتہ کئی سالوں سے سیاہ سفید کا مالک ہے۔
فیصلہ سازی میںاس کے مشورے اہم ہوتے ہیں لیکن خاموشی سے ،پیچھے رہ کر وہ سب کچھ کررہا تھا اور کررہا ہے۔کرائسٹ چرچ میں پاکستان کی اننگز اور 176 رنز کی بھاری بھرکم شکست کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کا مقابلہ دنیا کی بہترین ٹیم سے تھا اور دونوں ٹیموں کی رینکنگ میں واضح فرق ہے۔
لیکن اصل فرق تو اس سوچ کا ہے جو پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں میں واضح طور پر نظر آئی ہے۔میزبان جارحانہ انداز اختیار کر کے میچ جیتنے کی سوچ کے ساتھ میدان میں اترے اور مہمان دفاعی خول میں خود کو بند کر کے پوری سیریز اس ذہنیت کے ساتھ کھیلتے نظر آئے کہ میچ کس طرح بچانا ہے،اسی پتلی تماشے میں پاکستانی کرکٹ کو نا قابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔
ہمارے ملک میں بڑے مبصرین اور ناقدین بھی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احسان مانی اور وسیم خان کو فائرنگ رینج میں کھڑا رکھے ہوئے ہیں۔اگر فیصلے درست نیت سے کئے جائیں تو کسی کو تکلیف نہیں ہوتی لیکن جب ڈوریاں ہلانے والے اپنے سیاہ ماضی کے ساتھ ،ماسٹر اسٹروک کھیلیں تو پھر تکلیف ضرور ہوتی ہے۔اب وہی شخصیت مصباح الحق سے بھی بد ظن ہے جس سے مصباح کا ستارہ تیزی سے گردش میں آرہا ہے۔پی سی بی پاور کوریڈر سے تعلق رکھنے والے یہی شخص اب چاہتے ہیں کہ مصباح الحق کو ہیڈ کوچ سے تبدیل کرکے کسی غیر ملکی کو یہ ذمے داری دے دی جائے۔
مصباح کی تقرری تین سال کے لئے ہوئی ہے۔لیکن پہلا سال گذرنے کے بعد انہیں چیف سلیکٹر کی ذمے داریوں سے فارغ کردیا گیا ، وہی شخص محمد وسیم کو لانے میں سب سے آگے تھے۔نیوزی لینڈ میں ٹیسٹ اور ٹی ٹوئینٹی سیریز میںشرم ناک شکست کے بعد مصباح الحق شدید مشکل میں ہیں۔مصباح الحق کوکوچنگ سےہٹانےکے لئے وہی شخصیت سرگرم ہے جس نے پہلے مکی آرتھر کو لانے میں پھر ہٹوانے میں کردار ادا کیا تھا،پھر انہی کی آشیر باد سےمصباح الحق کو طاقتور ترین ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے طور پر لایا گیا اور اب انہیں فارغ کرنے میں وہی شخص پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں۔
پی سی بی کی راہداریوں پر نظر رکھنے والےکہتے ہیں کہ مصباح الحق کو کوچنگ سے سبکدوشی کے لئےطریقہ کار طے ہے اسی کے ذریعے معاملات آگے بڑہیں گے، وطن واپسی پر انہیں جنوبی افریقا کی سیریز سے پہلے فارغ نہیں کیا جائے گا البتہ جنوبی افریقا کی سیریز مصباح الحق کے مستقبل کا فیصلہ ضرور کرے گی۔اس سے قبل مصباح الحق کو بھی اپنے دفاع میں بولنے کا موقع دیا جائے گا۔مصباح الحق بھی کرکٹ کمیٹی اجلاس میں پیش ہوں گے۔کرکٹ کمیٹی میں سلیم یوسف کے علاوہ وسیم اکرم ،وسیم خان ،عروج ممتاز،علی نقوی اور عمر گل شامل ہیں۔
کرکٹ کمیٹی کا اجلاس جنوبی افریقا کے خلاف کراچی ٹیسٹ سے قبل ہوسکتا ہے اس سے قبل محمد وسیم کی سربراہی میں قومی سلیکشن کمیٹی کا اجلاس بھی ہوگا۔اگر کرکٹ کمیٹی ہیڈ کوچ کو تبدیل کرنے کی سفارش کرتی ہے تو پی سی بی کو نئے ہیڈ کوچ کے لئے اشتہار دینا ہوگا۔اس پورے پراسس میں جنوبی افریقا کی سیریز گذر جائے گی۔تاہم نئی تقرری جنوبی افریقا کی سیریز سے قبل نہیں ہوسکتی ۔
وطن واپسی پر مصباح الحق کے پاس مستعفی ہونے کا آپشن موجود ہے کہ لیکن اس کے امکانات کم ہیں۔پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی تبدیلی میں ایک ماضی کے بڑے کھلاڑی کا فیصلہ کن کردار ہوسکتا ہے۔پی سی بی جنوبی افریقا کی سیریز سے قبل کرکٹ کمیٹی کا اجلاس طلب کرے گی۔اس اجلاس میں جو سفارشات سامنے آئیں گی ان سفارشات پر ہیڈ کوچ کی تبدیلی کا فیصلہ چیئرمین احسان مانی کو کرنا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی شخصیت نے چیئرمین کرکٹ کمیٹی سلیم یوسف کی چیئر مین کرکٹ کمیٹی کی تقرری میں کردار ادا کیا تھا۔اب وہی شخص مصباح کو تبدیل کرنے میں پیش پیش ہے۔
حیران کن طور پر مصباح الحق کو اکتوبر2019میں کرکٹ کمیٹی کی سفارش میں ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنایا گیا تھا جبکہ کرکٹ کمیٹی میں رہ کر مصباح الحق نے مکی آرتھر کو بھی کوچ کے عہدے سے ہٹانے کی تجویز دی تھی۔
مکی آرتھر اور دیگر کوچز کو ہٹانے کے لئےاحسان مانی نے من وعن کرکٹ کمیٹی کی سفارش کو مان لیا تھا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ مصباح الحق کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ہیڈ کوچ بنانے کے پندرہ ماہ بعد پی سی بی کے بڑے اور اہم حکومتی شخصیت کے قریب رہنے والے ایک طاقتور کھلاڑی اس بات پر متفق ہیں کہ سابق کپتان نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ، اس لئے اب انہیں گھر بھیجا جائے۔
سلیکشن سمیت کئی معاملات پر مصباح الحق سخت گیر موقف رکھتے ہیں۔کپتان بننے کے بعد مصباح الحق نے جس انداز میں بعض کھلاڑیوں کی سلیکشن پر سخت گیر موقف اپنایا۔ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بن کر بھی انہوں نے روش تبدیل نہیں کی۔مصباح کے دور میں پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا، انگلینڈ کے بعد تیسری بیرون ملک ٹیسٹ سیریز میں شکست ہوئی ہے۔پاکستان نے ہوم گراونڈ پر سری لنکا،بنگلہ دیش اور زمبابوے کو شکست دی،نیوزی لینڈ میںکائل جیمی سن کا جادو اس سیزن میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ چھ فٹ آٹھ انچ طویل قامت جیمی سن نے گذشتہ سال بھارت کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں میں نو وکٹیں حاصل کی تھیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی دو ٹیسٹ میچوں میں وہ 11 وکٹیں لے اڑے تھے۔ پاکستان کے خلاف سیریز میں ان کی 16 وکٹوں کی اہمیت اتنی ہی رہی ہے جتنی بیٹنگ میں کین ولیم سن کی۔نیوزی لینڈ کی ٹیم یہ سیریز جیت کر آئی سی سی کی عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی آگئی ۔ اس کی اپنے ہوم گراؤنڈ پر شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا لیں کہ مارچ 2017 میں جنوبی افریقاکے خلاف شکست کے بعد سے وہ ہوم گراؤنڈ پر لگا تار آٹھ ٹیسٹ سیریز جیت چکی ہے۔بابر اعظم انگلی میں فریکچر کی وجہ سے نیوزی لینڈ میں کوئی میچ نہیں کھیل سکے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے قائم مقام ٹیسٹ کپتان محمد رضوان نے دو صفر سے سیریز ہارنے کے بعد کہا ہے کہ میں کپتان کی حیثیت سے تمام شکست کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جس طرح وکٹ کیپنگ میں پرفارم کرنا چاہیے تھا ویسا نہیں کر سکا۔ ہم نے میچ میں اچھی فیلڈنگ نہیں کی،ونوں ٹیموں کے درمیان سب سے بڑا فرق کائل جیمیسن رہے،شکست خوردہ ٹیم اب وطن واپس پہنچ چکی ہے لیکن پاکستان کرکٹ کے لئے اگلے چند دن اہم ہوں گے۔