• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

15؍ فروری کو غالب کی 152ویں برسی منائی جارہی ہے اس موقعے پر خصوصی تحریرنذرِ قارئین ہے۔

……٭٭……٭٭……

غالب اور اقبال اردو کے وہ شاعر ہیں جن کے کلام کی سب سے زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں۔ بلکہ غالب کے اردو کلام کی شرحیں تعداد میں اقبال کی شرحوں سے بھی زیادہ ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غالب کے اردو دیوان کی ساٹھ (۶۰) سے زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں ۔لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اہلِ علم اور سخن فہم اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور غالب کے کلام کی جزوی شرحیں یا غالب کے بعض پہلو دار اشعار کی نئی شرحیں سامنے آتی رہتی ہیں۔

البتہ غالب کے اردو دیوان کے پرانے شارحین میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے کام کا ذکر ہمیشہ احترام کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے کلام ِ غالب کی تفہیم میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ایسے ہی شارحینِ غالب میںعلی حیدر نظم طباطبائی بھی شامل ہیں ۔بلکہ طباطبائی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے غالب کے متداول اردودیوان کی سب سے پہلے مکمل شرح لکھی۔ان سے پہلے غالب کے کلام کی نامکمل یا جزوی شرحیں لکھی گئی تھیں جن میں سے چند یہ ہیں: 

۱۔ بوستانِ خرد: نثار احمد فاروقی کے مطابق غالب کے کلام کی پہلی شرح ان کے شاگرد خواجہ قمرا لدین راقم نے لکھی تھی۔ خواجہ راقم نے دیوان غالب کی شرح کا مسوّدہ نواب ذوالفقار جنگ بہادر کو حیدرآباد (دکن ) میں اشاعت کی غرض سے دیا تھا لیکن وہ شائع نہ ہوسکی کیونکہ اس کا مسودہ غالباً نواب صاحب سے گم ہوگیا تھا ۔ مرزا راقم کے انتقال کے طویل عرصے بعد یہ مسودہ کٹی پھٹی اور کرم خوردہ حالت میں ملا لیکن اشاعت کے قابل نہ رہا تھا۔ گویا یہ شرح جو غالب کے اردو کلام کی پہلی شرح تھی شائع نہ ہوسکی ۔

۲۔ چار چمن : درگا پرشاد نادر کی یہ شرحِ دیوانِ غالب جزوی شرح ہے۔ یہ شرح مطبوعہ ہے اور ۱۲۹۶ہجری ؍۷۹۔۱۸۷۸ء عیسوی میں شائع ہوئی۔ لیکن اس کا جو نسخہ نثار احمد فاروقی کو دست یاب ہوا تھا اس کے ابتدائی صفحات غائب تھے لہٰذا یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس شرح کا نام کیا تھا لیکن نثار احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ’’ بظاہر اس کتاب کا نام چار چمن ہے ‘‘۔

۳۔وثوق ِ صراحت : محمد عبدالعلی والہ نے یہ کتاب ۱۸۹۴ء میں لکھی۔ لیکن یہ صحیح معنوں میں دیوانِ غالب کی شرح نہیں ہے بلکہ مشکل الفاظ کے معنی اور اشارات پر مبنی ہے۔ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے لکھاہے کہ والہؔ کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس کتاب کو شرحِ دیوانِ غالب کے طور پر شائع کردیا۔

ان تینوں کتابوں کے بعد نظم طباطبائی کی شرح ِ دیوانِ غالب شائع ہوئی جس کانام ’’شرحِ دیوانِ اردوے غالب ‘‘ ہے۔ نظم طباطبائی کی تصانیف میں یہ سب سے اہم سمجھی جاتی ہے اور سب سے زیادہ مشہو ربھی ان کی یہی کتاب ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن حیدرآباد (دکن) سے ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا ۔ اسے فوراً ہی جامعات کے نصاب میں داخل کرلیا گیا کیونکہ طالب علموں کے لیے غالب کاکلام سمجھنا آسان نہ تھا اور یہ شرح ان کے لیے بڑی مددگارثابت ہوئی۔

نظم طباطبائی کی تاریخ ِ ولادت ۱۸۵۳ء یا ۱۸۵۴ء بتائی جاتی ہے۔ طباطبائی کاتعلق لکھنؤ سے تھا اوروہ اودھ کے والی واجد علی شاہ کے بیٹے مرزا کام بخش کے اتالیق بھی رہے تھے، بعد ازاں دکن کے شہزادوں کے استاد رہے ۔نظام کالج میں عربی فارسی کے استاد رہے۔ اس کے بعد جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر مقرر کیے گئے۔ دکن میں دارالترجمہ میں بھی خدمات انجام دیں ۔ ۱۹۳۳ء میں حیدرآباد (دکن) میں انتقال کیا۔

نظم طباطبائی کی شرح کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ نہ صرف غالب کے اردو دیوان کی پہلی مکمل شرح ہے بلکہ طباطبائی اردو ، فارسی اور عربی کے ادب اور ان کی ادبی روایات اور شعری مباحث سے پوری طرح واقف تھے اور اسی لیے وہ تشریح کے ساتھ کلام ِ غالب میں صنائع بدائع کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس کی لغوی اور معنوی خوبیوں کو عمدگی سے واضح کرتے ہیں۔ علمی ، لغوی، قواعدی اور ادبی نکات بھی وہ بعض اوقات تشریح میں پیش کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تشریح طالب علموں کے لیے اور بھی مفیدہوجاتی ہے۔

نظم طباطبائی نے غالب کے بعض اشعار کی شرح ایسی تفصیل سے بیان کی ہے اور ان کے ایسے پہلو دریافت کیے ہیں جوحیران کن ہیں۔ مثلاً غالب کا ایک شعر ہے :

قفس میں مجھ سے روداد ِ چمن کہتے، نہ ڈر ہمدم

گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟

اس کی تشریح میں نظم طباطبائی نے ایک ایک لفظ کے اشارے اور دلالتیں جمع کرکے گویا ایک کہانی بیان کردی ہے۔ اس امر کا اعتراف غلام رسول مہر نے بھی اپنی شر حِ غالب میں کیا ہے ۔ طباطبائی لکھتے ہیںـ’’اس قدر معانی ان دونوں مصرعوں میں سماگئے ہیں کہ اس کی تفصیل یہاں لطف سے خالی نہیں‘‘۔ اور اس کے بعد طباطبائی نے نکتہ وار اس کی تفصیل بیان کی ہے جسے ہم یہاں الفاظ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ پیش کررہے ہیں:

۱۔ ایک پرندہ چمن اور نشیمن سے جدا ہوکر قید ہوگیا ہے۔ اس مضمون پر فقط ایک لفظ ’’قفس‘‘ اشارہ کررہا ہے ۔

۲۔ اس نے اپنی آنکھوں سے باغ میں بجلی گرتے ہوئے دیکھی ہے اور قفس میںاس تردّد میں ہے کہ نہ جانے میرا آشیانہ بچا یا جل گیا۔ اس تمام معانی پر فقط ’’کل ‘‘ کا لفظ دلالت کررہا ہے۔

۳۔ ایک اور پرندہ جو اس کا ہمدم اور ہمدردہے وہ سامنے کسی درخت پر آکر بیٹھا ہے اور قفس میں قید پرندے نے اس سے رودادِ چمن کو دریافت کرنا چاہا ہے۔ مگر اس سبب سے کہ ُاسی کا نشیمن جل گیا ہے طائر ِ ہم صفیر مفصل حال کہتے ہوئے پس وپیش کرتا ہے کہ اس آفت ِ اسیری میں نشیمن کے جلنے کی خبر کیا سنائوں ۔ اس تمام مضمون پر فقط یہ جملہ دلالت کرتا ہے کہ ’’مجھ سے روداد ِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم‘‘۔

۴۔ علاوہ اس کثرت ِ معنی کے ،اُس مضمو ن نے ،جو دوسرے مصرعے میں ہے، تمام واقعے کو کیسا دردناک کردیا ہے۔ یعنی جس گرفتار ِ قفس پر ایک ایسی تازہ آفت و بلاے آسمانی نازل ہوئی ہے اس نے کیسا اپنے دل کو سمجھا کر مطمئن کرلیا ہے کہ باغ میں ہزاروں آشیانے ہیں ، کیا میرے ہی نشیمن پر بجلی گری ہوگی۔ یہ حالت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کا اور سننے والوں کا دل کڑھتا ہے اور ترس آتا ہے۔ اور یہ ترس آجانا ایک اثر ہے جواس شعر نے پیدا کیا ہے۔

پھر لکھتے ہیں کہ یہ شعر ایک مثال ہے دو اہم اصولوںکی جو شاعری اور ادب میں اہم سمجھے جاتے ہیں۔ یہا ںانھوں نے بلاغت اور شعر کی تاثیر کی بات کی ہے اور اس کی وضاحت حواشی میں یوں کی ہے کہ وہ دو اصول یہ ہیں :ایک یہ کہ بہترین کلام وہ ہے جس میں کم سے کم لفظوں میں مضمون پوری طرح ادا کردیا جائے ۔ 

اسی بات کو بلاغت کی تعریف بیان کرتے ہوئے دہرایا جاتا ہے ۔ یعنی بلاغت یہ ہے کہ کم سے کم لفظوں میں پوری بات کہہ دی جائے۔ دوسرے یہ کہ شعر ایسا کلام ہوتا ہے جس سے پڑھنے والوں کے دل میں انقباض یا انبساط پیدا ہو۔گویا شعر ایسا سخن ہے جس کے اثر سے قاری کسی چیز سے نفرت کرنے لگتا ہے یا کسی چیز کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔ یہ گویاشعر یا کلام کی تاثیر کا ذکر ہے۔

قارئین نے ملاحظہ کیا کہ غالب کے کلام کی جامعیت ، بلاغت اور تاثیر کونظم طباطبائی نے کس وضاحت سے ادبی نکات کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ لیکن یہاں مقطعے میں ایک سخن گسترانہ بات آپڑی ہے اور وہ یہ کہ نظم طباطبائی کا ذہن اس نکتے کی طرف نہیں گیا جس کی طرف ان کے بعد آنے والے غالب کے کسی اورشارح نے توجہ مبذول کرائی ہے اوروہ یہ کہ اسیر پرندے نے دوسرے مصرعے میں جو بات کہی ہے (یعنی گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو) اس سے مراد یہ بھی لی جاسکتی ہے کہ اس باہمت اسیر ِ قفس کا کہنا تھا کہ اگر میرے آشیاں پہ بجلی گری بھی ہے تو کوئی بات نہیں ۔وہ اب میرا آشیاں نہیں رہا اور میں قفس سے نکل کر دوسرا آشیاں تعمیر کرلوں گا ۔ جس آشیاںپر بجلی گرگئی اسے میں اپنا انہیں سمجھتا لہٰذا س کا حال کہتے ہوئے یہ سوچ کر ڈرو مت کہ مجھے دکھ ہوگا۔ مجھے کوئی دکھ نہیں ہوگا کیونکہ میں اب دوسرا نشیمن تعمیر کرلوں گا۔

یہ ہے ہمت اور حوصلہ اس کا جو اسیر قفس ہے اور یہ بھی نہیں جانتا کہ رہائی کب ملے گی اور ملے گی بھی یا نہیں۔ غالب کی افتادِ طبع کے پیش نظر یہ اضافی تشریح یا اضافی معنی بھی قرین ِ قیاس معلوم ہوتے ہیں۔

تازہ ترین