پاکستان سپرلیگ کا میلہ سجنے کے لئے تیارہے ۔جنوبی افریقا کی سیریز کے ساتھ ہی پاکستانی شائقین دنیا کے صف اول کے کھلاڑیوں کو اپنے گراونڈز پر ایکشن میں دیکھیں گے۔کرکٹ کے دیوانے اس میگا ایونٹ کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ٹورنامنٹ کی ٹرافی کون اٹھائے گا اس کا فیصلہ قذافی اسٹیڈیم میں فائنل کے بعد ہوگا لیکن ابتدا ئی 16 دن نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ٹورنامنٹ کے آدھے میچز ہوں گے۔
محکمہ صحت کے حکام کی گائیڈ لائنز کے مطابق 20 فیصد تماشائیوں کو پی ایس ایل کے گروپ میچز کے دوران اسٹیڈیم جا کر میچز دیکھنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ ٹورنامنٹ کے پلے آف میچز میں تماشائیوں کی اجازت کا فیصلہ کورونا مریضوں کی شرح کو دیکھنے کے بعد کیا جائے گا۔
لیکن بیس فیصد تماشائی کی آمد کی ساتھ ہی جوش وخروش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔پاکستان نے تیسرےاور آخری ٹی ٹوئنٹی میں جنوبی افریقا کو 4 وکٹوں سے شکست دیکر سیریز 1-2 سے اپنے نام کرلی۔جنوبی افریقا کی جانب سے دیا گیا 165 رنز کا ہدف گرین شرٹس نے 19 ویں اوور میں 6 وکٹوں پر پورا کیا ، ٹیسٹ کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی پاکستان نے جیت لی،تیسرے میچ میں محمد رضوان 42 بابر اعظم 44 رنز نے فتح میں اہم کردار ادا کیا۔گرین شرٹس کی جانب سے ڈیبیو کرنے والے زاہد محمود نے 3 جبکہ محمد نواز اور حسن علی نے 3، 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا،جنوبی افریقا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بعد مہمان ٹیم نے ٹی ٹوئینٹی سیریز میں بھرپور فائٹ دی جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم آسا نیسے وائٹ بال سیریز جیت جائے گی ایسا نہیں ہوا۔
البتہ اس سیریز سے پاکستان کو محمد رضوان کی شکل میں ایک میچور بیٹسمین کے روپ میں نظر آئے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سرفراز احمد کی جگہ لینے والے محمد رضوان نے اپنے ناقدین کی تنقید کے باوجود ٹیسٹ اور ٹی ٹوئینٹی سیریز میں کمال بیٹنگ کی۔پنڈی ٹیسٹ میں مشکل صورتحال میں پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کے پانچ دن بعد قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پہلی ٹی ٹوئینٹی سنچری داغ دی۔
محمد رضوان کی شاندار سنچری کے باوجود قومی ٹیم ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد تین رنز سے شکست دے پائی ہے۔رضوان کی ناقابل شکست یاد گار سنچری 64 گیندوں میں مکمل ہوئی اور وہ 104 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ بلا لہراتے ہوئے میدان سے باہر گئے۔ انھیں مین آف دی میچ قرار دیا گیا ہے۔وہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ٹی ٹوئنٹی میں سنچری بنانے والے پہلے کھلاڑی ہیں۔
رضوان پاکستان کی طرف سے ٹی ٹوئنٹی میچ میں سنچری اسکور کرنے والے دوسرے کھلاڑی ہیں۔ اس سے قبل احمد شہزاد ٹی ٹوئنٹی میں سنچری ا سکور کر چکے ہیں۔محمد رضوان اب ٹی ٹوئنٹی میں ایک اننگز میں سب سے زیادہ رنز ا سکور کرنے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔سرفرا زاحمد کی کارکردگی نے رضوان کو ٹیم میں شمولیت کے لئے طویل انتظار کرایا۔سرفراز احمد نے اپنا ون ڈے ڈیبیو 2007 اور ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو 2010 میں کیا تاہم وہ اور محمد رضوان گذشتہ لگ بھگ چھ برسوں سے کسی نہ کسی حیثیت سے پاکستانی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔سرفراز احمد کو جب 2017 میں تینوں فارمیٹس کی کپتانی سونپی گئی تو محمد رضوان کبھی بطور بارویں کھلاڑی اور کبھی بطور بلے باز ٹیم کا حصہ رہے۔
سرفراز احمد نے ٹیم میں بطور کپتان چیمپئنز ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا وہیں وہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کو بھی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر لانے والے کپتان تھے۔ 2019 کے ورلڈکپ اور سری لنکا کی سیریز کے بعدسرفراز احمدکپتانی سے ہٹا دیا گیا اور وکٹ کیپنگ کی ذمہ داری محمد رضوان کو دے دی گئی۔محمد رضوان سے بات کریں تو وہ سادگی سے دل کی بات کہہ دیتے ہیں۔پنڈی ٹیسٹ میں سنچری بنانے کے بعد انہوں نے کہا کہ پ کو ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ میں نے ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم سے جب بات کی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ نچلے نمبرز کے بیٹسمینوں کے ساتھ کس طرح بیٹنگ کرتے ہیں یہ آپ اسد شفیق سے سیکھیں۔
میں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور اب میں ٹیل اینڈرز کے ساتھ کھیلنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتا۔پہلی سنچری میرے لیے بہت مشکل تھی اور میں چیلنج لے کر بیٹنگ کے لیے گیا تھا کیونکہ یاسر شاہ نے مجھ سے کہا کہ میری نظر میں آپ بیٹسمین نہیں ہیں اگر آج آپ نے سو کیا تب میں آپ کو بیٹسمین مانوں گا کیونکہ پچاس پچاس تو میں بھی کرلیتا ہوں۔ اسی طرح دوسرے ساتھی کرکٹرز کی طرف سے بھی دلچسپ جملے سننے کو ملے تھے۔سرفراز احمد نے مجھ سے کہا تھا کہ سنچری کرکے آنا اور جب میں سنچری کرکے واپس آیا تو انھوں نے مجھے گلے لگایا۔
سرفراز احمد بلاشبہ ٹیم مین ہیں اور اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن محمد حفیظ نے ان کے بارے میں طنز کے جو نشتر چلائے تھے اس پر سرفراز احمدخاموش نہیں رہ سکے۔حفیظ نے ایک ٹویٹ میں لکھا رضوان کو ٹی ٹوئنٹی میں سنچری کرنے پر مبارکباد، تم ایک چمکتا ستارہ ہو لیکن مجھے کئی مرتبہ خیال آتا ہے کہ تمہیں کب تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ تم پاکستان کے لیے تمام فارمیٹس میں نمبر ون وکٹ کیپر بیٹسمین ہو؟ جسٹ آسکنگ (صرف پوچھ رہا ہوں)۔عام طور پر سرفراز پریس کانفرنس اور انٹرویوز کے دوران تنازعات سے بچتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سرفراز احمد نے حفیظ کی ٹویٹ کا جواب دیا اور انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔
سرفراز احمد نے سوشل میڈیا پر لکھا محمد حفیظ صاحب پاکستان کے لیے کھیلنے والے سارے ہی وکٹ کیپرز نمبر ون ہیں اور قابلِ احترام بھی۔ چاہے وہ وسیم باری ہوں یا تسلیم عارف، امتیاز احمد ہوں یا سلیم یوسف، راشد لطیف ہوں معین خان ہوں یا کامران اکمل۔ یا آج کل رضوان۔ہم سب رضوان کے ساتھ ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ملک کے لیے زیادہ سے زیادہ بہترین اننگز کھیلیں اور آئندہ بھی پاکستان کے لیے جس کو بھی کھیلنے کا چانس ملے گا وہ نمبر ون ہی ہو گا۔ ہم ایک طویل عرصے تک پاکستان کی نمائندگی کرنے والے انٹرنیشنل کرکٹر سے صرف مثبت رویے کی امید کرتے ہیں۔
جسٹ سیئنگ یعنی صرف کہہ رہا ہوں۔محمد عامر نے بھی اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز نہیں کیا اور سرفراز احمد کی حمایت میں سامنے آ گئے۔انھوں نے لکھا: ’بابو آپ آج بھی پاکستان کے نمبر ون وکٹ کیپر بیٹسمین ہیں اور آپ کی ہی کپتانی تھی جب ٹیم دو سال تک نمبر ون رہی اور سب سے بڑھ کر چیمپیئنز ٹرافی (جیتی)۔ اس لیے آپ پاکستان کا فخر ہیں اور قابلِ عزت ہیں اور مزے کی بات لوگوں کا کام ہے خواہ مخواہ کا بولنا اس لیے آپ انجوائے کریں۔
محمد عامر نے اپنے سابق کپتان کی حمایت کردی لیکن حفیظ کا بیا ن پہلی بار نہیں آیا ہے وہ ماضی میں ایک انٹر ویو میں کہہ چکے ہیں کہ کپتان صرف ٹاس کرنے والا ہی نہیں ہونا چاہیے، آخر میں ہم کھلاڑی ہیں اور ہمیں پرفارم بھی کرنا ہوتا ہے، ٹیم میں ہماری موجودگی صرف اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کپتان ہیں۔محمد حفیظ نے جو بات کی اس کا جواب مل گیا اس لئے پاکستان کرکٹ کو محمد رضوان جیسے غیر متنازع اور کھیل پر فوکس کرنے والے کھلاڑی کی ضرورت ہے کیوں کہ جب آپ کسی کے بارے میں طنزیہ بولیں گے تو جواب کے لئے بھی تیار رہنانا چاہیے۔