حبیب جالب
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
دیوار ہے وہ اب تک جس میں تجھے چنوایا
دیوار کو آ توڑیں بازار کو آ ڈھائیں
انصاف کی خاطر ہم سڑکوں پہ نکل آئیں
مجبور کے سر پر ہے شاہی کا وہی سایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
تقدیر کے قدموں پر سر رکھ کے پڑے رہنا
تائید ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا
حق جس نے نہیں چھینا حق اس نے کہاں پایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
کٹیا میں ترا پیچھا غربت نے نہیں چھوڑا
اور محل سرا میں بھی زردار نے دل توڑا
اف تجھ پہ زمانے نے کیا کیا نہ ستم ڈھایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں
سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں
تجھ کو کبھی جلوایا تجھ کو کبھی گڑوایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا