• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سو باتوں کی ایک بات، جب جمہوریت اور سیاست منطق لیس، اصول لیس، اخلاقیات لیس ہوگی تو یہی ہوگا جو ہورہا۔صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد، اقلیت جیت گئی، اکثریت ہار گئی، یوسف رضا گیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ، اقلیت جیت گئی، اکثریت ہار گئی، اب اگر صادق سنجرانی کا مینڈیٹ حرام تھا تو یوسف رضا گیلانی کا مینڈیٹ بھی حرام، اگر صادق سنجرانی کا مینڈیٹ حلا ل تھا تو پھر یوسف رضا گیلانی کا مینڈیٹ بھی حلال، مجھ سے پوچھیں تو دونوں کا مینڈیٹ حرام، سنجرانی، گیلانی جس طرح دونوں جیتے، ہار جاتے تو بہتر ہوتا،بلاشبہ دونوں جیت گئے، مگر دونوں بار جمہوریت ہا رگئی، لیکن کیا کریں، یہاں ایک دھڑا سنجرانی جیت پر سوگ اور گیلانی جیت پر خوشیاں مناچکا جبکہ دوسرا دھڑا سنجرانی جیت پر خوشیاں اور گیلانی جیت پر سوگ منا چکا، ایک دھڑے کو سنجرانی جیت ڈنکی ٹریڈنگ کی مرہون منت لگی جبکہ دوسرے دھڑے کو گیلانی جیت ڈنکی ٹریڈنگ کی بدولت لگ رہی۔

بات ڈنکی ٹریڈنگ کی ہوئی تو یہ بھی بتاتا چلوں، اب تو بدقسمتی سے ایوان بالا مطلب سینیٹ اور ڈنکی ٹریڈنگ لازم وملزوم ہوکر رہ گئی، ہر بار نوٹ چلیں، ہربار خرید وفروخت ہو، ہر بار شورشرابہ، رونا دھوناہو، مگر ہر بار حل نکلے بنا بات ٹھپ ہو جائے، کبھی عملی طور پر کچھ نہ ہو، سینیٹ کے 48سال، زوال ہی زوال، بہت پہلے پی پی کے متوقع سینیٹر اسلم گل ہار گئے تو شورشرابے کی انتہا ہوئی، مارے گئے، لٹے گئے، اگلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں ہیر پھیر ہوئی تو قاضی حسین احمد بول پڑے ’’ہارس ٹریڈنگ ہو گئی‘‘ اگلی بار سینیٹ انتخابات میں ہیر پھیر ہوئی تومولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف کہہ اٹھے ’’سینیٹ میں نوٹ چلے‘‘ نجانے کس چھومنتر سے محسن لغاری سینیٹر بن گئے تو پھر شورمچا’’ کم ووٹوں کے باوجود گورنر سرور سینیٹر بنے تو مسلم لیگ (ن) چیخ اٹھی ساڈے نال زیادتی ہوگئی، 2018میں کے پی میں جو ہوا، نوٹوں کے ڈھیروں والی ویڈیوز سب دیکھ چکے، بلوچستان میں سینیٹ انتخابات میں جو ہوا وہ بھی سب کے سامنے، صادق سنجرانی کیخلاف ناکام ہوئی تحریک عدم اعتماد نے تو ایوان بالا کے تقدس،اپنی جمہوریت، اپنی سیاست سب کو ننگا کر کے رکھ دیا

حاصل بزنجو بولے ’’سینیٹ کے منہ پر کالک مل دی گئی‘‘ رضاربانی کہنے لگے’’ مجھے سینیٹ میں بیٹھے شرم آرہی‘‘پرویز رشید بزنجو وفا ت کے بعد سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہنے لگے ’’ بزنجوصاحب میں معذرت خواہ ہوں میرے 14سینیٹرز نے آپ سے بے وفائی کی‘‘خواجہ آصف بولے’’ آصف زرداری ہمارے ساتھ کر گئے‘‘بلاول بھٹو نے تمام پی پی سینیٹرز سے استعفے لے لئے مگر عملی طور پر کیاہوا، صفر بٹا صفر، ہر بار سب گلوں باتو ں سے ٹرخا کر چلتے بنے اور پھر یوسف رضا گیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ کا موقع آن پہنچا۔

اس مقابلے میں بھی وہی ہواجو ہر سینیٹ انتخابات میں ہوا، مگر حیرت اس بات کی، اس بار بظاہر ثبوت اور شواہد پہلے سے زیادہ مگر الیکشن کمیشن پہلے چپ پھر سست، گیلانی صاحب کو بلا کر یہ بھی نہ پوچھا، آپ کے 160ووٹ، آپ کو ملے 169، 9ووٹ کہاں سے آئے؟

وزیراعظم عمران خان کا بیان ’’ گیلانی بمقابلہ شیخ میں میرے 15سولہ ایم این اے بکے، الیکشن کمیشن چپ، اتنا نہ ہوا، وزیراعظم سے پوچھتا، آپ کے پاس کیا ثبوت کہ آپکے 15سولہ ایم این اے بکے، ذرا ان کے نام ہمیں بھی بتائیں، وزیراعظم کا بیان، 50سے 70کروڑ ایک سینیٹر کی بولی، الیکشن کمیشن چپ، اتنا نہ ہوا، بلا کر پوچھتا، آپ کو کیسے پتا ایک سینیٹر بننے کیلئے 50سے 70کروڑ کی بولی لگ رہی،آپ وزیراعظم یقیناً سنی سنائی باتوں پر بیان نہیں دے رہے ہوں گے کہ 50سے 70کروڑ کا سینیٹر بن رہا، ثبوت دیں، وزیراعظم نے کہا،ہماری خواتین ایم این اے کو فون آئے کہ سینیٹ کیلئے ووٹ ہمیں دیں، دوکروڑ سے بولی شروع ہوئی، الیکشن کمیشن خاموش، اتنا نہ ہوا،وزیراعظم سے کہتے ان خواتین ایم این ایز کے نام بتائیں جن کو فون آئے، خواتین ایم این ایز کو بلا کر پوچھاجاتا، فون کہاں سے آئے، کس نے کئے، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا’’ اسلام آباد میں لوگ نوٹوں بھرے بریف کیس لئے گھوم رہے، دبئی ہنڈی سے پیسہ پہنچانے کا ریٹ الگ،الیکشن کمیشن خاموش، اتنا نہ ہوا، اٹارنی جنرل سے پوچھتا، قبلہ آپکے پاس یہ معلومات کہاں سے آئیں، ثبوت دینا چاہیں گے

مریم نواز بولیں، گیلانی صاحب کو جتوانے کیلئے پنجاب میں ن لیگ کی ٹکٹیں چلیں، مطلب مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے 10سے 12پنجاب کے ایم این ایز نے اگلے الیکشن میں ن لیگ کی ٹکٹیں ملنے کی یقین دہانی کے بعد گیلانی صاحب کو ووٹ دیئے، الیکشن کمیشن خاموش، اتنانہ ہوا، مریم نواز کو بلا کر کہتا، یہ تو ہارس ٹریڈنگ، کیوں کی، اب ہمیں ان ایم این ایز کے نام دیں، علی حیدر گیلانی کی آڈیوز، ویڈیوز آچکیں، وہ آڈیوز، ویڈیوز کا اعتراف کر چکے، ان آڈیوز، ویڈیومیں جو تحریک انصاف کے ممبران، وہ منظر عام پر آچکے

وہ اقرار کرچکے مگر الیکشن کمیشن خاموش۔دلچسپ بات یہ، ڈسکہ دھاندلی میں دلیرانہ کردار ادا کرنے والا الیکشن کمیشن گیلانی صاحب بمقابلہ حفیظ شیخ میں ایسا نکلا کہ 2مارچ کو تحریک انصاف نے علی حیدر گیلانی آڈیوز،ویڈیو کے حوالے سے درخواست دی، الیکشن کمیشن نے 4دن خاموش رہ کر مزید 5دن بعد 11مارچ کو سماعت مقرر کر دی، اب 12مارچ کو چیئرمین سینیٹ انتخابات،کہیں ایسا تو نہیں کہ کارروائی اس لئے سست ہورہی کہ چیئرمین سینیٹ انتخابات سے پہلے آڈیوز

ویڈیو کا معاملہ حل نہ ہوپائے، حالانکہ اگر الیکشن کمیشن چاہتا تو معاملہ پہلے بھی حل ہوسکتا تھا، اب سینیٹ چیئرمینی کیلئے گیلانی بمقابلہ سنجرانی دونوں سینیٹ سپیشلسٹ، زرداری صاحب کی دریافتیں، اپوزیشن اتحاد کے سینیٹ میں 53ممبران جبکہ حکومت کے 47، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چونکہ اپوزیشن کی تعداد زیادہ، عمران خان سنجرانی صاحب کو نہ کھڑا کرتے، یقیناً عمران خان کا قد بڑا ہو جاتا

مگر چونکہ یہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا، اب اگر اقلیت کے باوجود صادق سنجرانی جیت جاتے ہیں تو کیا یہ جمہوریت کی جیت ہوگی، کیا اپوزیشن اسے جمہوریت کی فتح مان کر ویسے ہی خوشیاں منائے گی جیسے وہ گیلانی صاحب کی جیت پر خوشیاں منارہی، مگر بات و ہی بلکہ سوباتوں کی ایک بات، جب جمہوریت اور سیاست منطق لیس، اصول لیس، اخلاقیا ت لیس ہوگی تو یہی ہوگا جو ہورہا۔

تازہ ترین