• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند مہینوں سے اک دلچسپ سی تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ شام کا وقت دوست احباب کے لئے وقف ہے۔ کورونا کی وجہ سے حد درجہ احتیاط کے باوجود قسطوں میں ہی سہی، پانچ چھ وزیٹرز تو بہرحال ہوتے ہیں۔ مرغوب موضوعات میں سیاسی حالات، مہنگائی، سیاستدانوں کا گیا گزرا پن، کرائم میں اضافہ کا رجحان، ہندوستان کے ساتھ تعلقات، بھونڈی بودی گورننس، کورونا کی صورت حال وغیرہ سرفہرست ہوتے ہیں۔ میں کرٹسی کی وجہ سے سنتا بہت زیادہ، بولتا ذرا کم ہوں۔ مسلسل محسوس کر رہا ہوں کہ ٹی وی چینلز سے بیزاری میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خصوصاً ٹاک شوز سے اکتاہٹ بہت نمایاں ہے اور وجہ اس کی بھی ڈھیٹ قسم کے وہی مخصوص گنے چنے چند سیاسی چہرے ہیں جو انتہائی بے حیائی سے اپنی اپنی قیادتوں کے کرتوتوں، بیانوں کا نان سٹاپ دفاع اور ایک دوسرے کو رن ڈائون کرنے اور ذلیل کرنے کو ہی اپنی فتح بلکہ سیاسی دھرم سمجھتے ہیں۔ گفتگو کی کوالٹی کے علاوہ یکسانیت اور جمود لوگوں پر گراں گزرتے ہیں۔ وہی چہرے، وہی باتیں، وہی جگتیں، وہی انداز، وہی اصطلاحیں سن سن کر لوگ اکتانے اور اوبھنے لگے ہیں تو شاید حق بجانب ہیں کیونکہ میری ذاتی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہوتی جا رہی تھی حالانکہ ٹاک شوز وغیرہ دیکھنا میری پیشہ ورانہ ضرورت بھی ہے کیونکہ ’’بیرونی دنیا‘‘ سے یہی میرا اکلوتا رابطہ ہے۔ تقریبات پر میں نہیں جاتا، سوشلائز کرنے میں کبھی دلچسپی نہیں رہی، نہ ہوٹلوں کلبوں میں جانے کا شوق۔ جس بندے نے دس دس دن گھر سے نہیں نکلنا، وہ اگر ٹی وی بھی نہ دیکھے سنے تو کیا ہوگا؟ لیکن سچ یہ کہ میری اپنی حالت بھی دوسرے ٹی وی بیزار لوگوں سے مختلف نہیں تھی سو ’’سچوئشن‘‘ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے میں نے اپنی ’’میرے مطابق‘‘ والی مختصر سی ٹیم سے مشورہ کیا تو فاروق، عمان اور مریم نے بھی میرے اس تاثر کے ساتھ اتفاق کیا کہ ٹاک شوز کے حوالہ سے ناظرین کی دلچسپی کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ کامیڈی شوز تو پہلے ہی پاپولر تھے کہ اس ٹینس ترین ماحول میں لوگ ہنسنا، مسکرانا اور ریلیکس کرنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ کیفیت میں ٹی وی ڈرامہ دیکھنے کے رجحان میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔

ظاہر ہے یہ کوئی سروے نہیں، ایک سطحی قسم کی اوبزرویشن ہے اور اگر یہ درست ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ سیاست اور سیاستدانوں سے بتدریج لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں اور اگر یہ ’’لاتعلقی‘‘ ایک حقیقت ہے تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟

بے چارے میڈیا کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والے محاورے کے مطابق حکام کے بعد عوام نے بھی منہ پھیر لیا تو بات کہاں تک جا سکتی ہے؟ میں نہیں جانتا لیکن یہ معمولی سا مشورہ ضرور دے سکتا ہوں کہ ٹاک شوز میں ’’کرنٹ افیئرز‘‘ بلکہ نام نہاد کرنٹ افیئرز کے ساتھ دوسرے ایسے موضوعات کا تڑکا لگانے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے جو ناظرین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافہ کا سبب بن سکیں کہ پسندیدہ ڈش جتنی بھی پسندیدہ ہو، ہر روز نہیں کھائی جا سکتی۔ رہ گئے گلوبل ٹرینڈز تو وہ آسمان سے نہیں اترتے، انسان ہی انہیں متعارف اور مقبول بناتے ہیں اور تجربہ کرنا کفر نہیں ہے۔ اگر پذیرائی نہیں ملتی تو جس کا جب جی چاہے، اسے ریورس کرسکتا ہے۔

عام انیکر پرسنز تو شاید ایسا رسک افورڈ نہ کر سکیں لیکن مقبول اینکرز کے لئے یہ تجربہ کسی دلچسپ چیلنج سے کم نہ ہوگا اور گھسی پٹی، رٹی رٹائی باتوں سے ناظرین کی جان بھی چھٹ جائے گی۔ نئی ایجادات سے لے کر اقتصادیات اور سماجیات تک لاتعداد موضوعات ایسے ہیں جو ناظرین کے لئے کسی طلسم ہوشربا و الف لیلیٰ سے کم نہ ہوں گے۔ لوگوں کی دلچسپی ہی نہیں معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اور عین ممکن ہے ’’ٹاک شوز‘‘ کی گرتی ہوئی مقبولیت بھی سنبھل جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین