پاکستانی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقا میں ون ڈے سیریز میںجس طرح لڑ کر میچ کھیل رہی ہے اس سے ٹیم کی فائٹنگ اسپرٹ کھل کر سامنے آرہی ہے۔فہیم اشرف نے پہلا میچ آخری گیند پر چوکا مار کر جتوایا ، دوسرا میچ پاکستان ہارا ضرور لیکن مقابلہ خوب کیا۔ شائقین اس ہار کو بھی قبول کررہے ہیں۔بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم ایک مختلف ٹیم دکھائی دے رہی ہے۔جس میں لڑنے کی صلاحیت ہے لیکن اب بھی سلیکشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔آصف علی کو کیوں بار بار موقع دیا جارہا ہے۔
دانش عزیز شاید اتنی بڑی کرکٹ کے لئے تیز بولروں کے خلاف تیار نہیں تھے۔لگ رہا ہے کہ ان کا انجام بھی احسان علی جیسا نہ ہو۔شاداب خان کو نائب کپتان بناکر ٹیم کے لئے لازم قرار دے دیا گیا تھا ،تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ وہ انجری کے باعث دورہ جنوبی افریقا اور زمبابوے سے باہر ہو گئے۔دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں بیٹنگ کے دوران شاداب خان بائیں پاؤں پر گیند لگنے کے باعث انجری کا شکار ہوئے۔
وہ اس سے قبل بھی ان فٹ رہے ہیں، اب ایک بار پھر ٹیم سے آوٹ ہوگئے، ان کی فارم ایسی نہیں تھی کہ انہیں عثمان قادر پر ترجیح دی جائے۔سلیکشن میں فاش غلطیوں کے باوجود پاکستان ابتدائی دونوں میچ خوب کھیلا ہے۔پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان فیصلہ کن ون ڈے انٹر نیشنل بدھ کو سنچورین میں کھیلا جائے گا۔
سیریز میں پاکستان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں کیوں کہ جنوبی افریقا اپنے پانچ صف اول کے کھلاڑیوں کوئنٹن ڈی کوک،ڈیوڈ ملر،رباڈا،نگینی اور نوکیا کی خدمات سے محروم ہے۔۔پانچوں کھلاڑیوں کو کرکٹ جنوبی افریقا نے بھارت کی محبت میں آئی پی ایل کے لئے ریلیز کردیا ہے۔ اس فیصلے پر بورڈ پر شدید تنقید ہورہی ہے۔ پاکستان اور جنوبی افریقا کی سیریز ایک ایک میچ سے برابر ہے۔
پاکستان نے بابر اعظم کی سنچری کی بدولت پہلا میچ آخری گیند پر تین وکٹ سے جیتا تھا جبکہ جنوبی افریقا نے دوسرے میچ میں17رنز سے کامیابی حاصل کی۔193 رنز کی اننگز کے باوجود فخر زمان پاکستان کو فتح سے تو ہمکنار نہ کرا سکے لیکن اس عمدہ اننگز کے ساتھ انہوں نے عالمی ریکارڈ بنا دیا۔ جوہانسبرگ میں کھیلے گئے سیریز کے دوسرے ون ڈے میچ میں پاکستان کو فتح کے لیے 342 رنز کا ہدف دیا تھا۔ہدف کے تعاقب میں پاکستانی یٹنگ لائن بری طرح سے ناکام ہوئی اور فخر زمان کے سوا کوئی بھی بیٹسمین جنوبی افریقی بولروںکا مقابلہ نہ کر سکا۔
پہلا میچ جیتنے والی پاکستان کی ٹیم ایک موقع پر 205 رنز پر 7 وکٹیں گنوا چکی تھی اور اسے فتح کے لیے مزید 137رنز درکار تھے لیکن اس مرحلے پر فخر زمان ڈٹ گئے۔ڈبل سنچری سے محض چند قدم کی دوری پر فخر زمان وکٹوں کے درمیان سست روی سے رننگ کے نتیجے میں متنازع انداز میں رن آؤٹ ہو کر وکٹ گنوا بیٹھے اور کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری اسکور نہ کر سکے۔30سالہ اوپنر نے 155 گیندوں پر 8 چوکوں اور 10 چھکوں کی مدد سے 193 رنز کی اننگز کھیلی۔
فخر زمان پاکستانی ٹیم کو فتح تو نہ دلا سکے لیکن اس عمدہ اننگز کی بدولت انہوں نے ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کا نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا۔ون ڈے کرکٹ میں فخر زمان سمیت متعدد بیٹسمین ڈبل سنچری اسکور کر چکے ہیں لیکن انہوں نے یہ تمام اننگز پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کھیلیں۔ اس کے برعکس فخر نے یہ اننگز ہدف کے تعاقب میں اسکور کھیلی اور نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا۔ اس سے قبل ہدف کے تعاقب میں سب سے بڑی اننگز کھیلنے کا ریکارڈ آسٹریلیا کے شین واٹسن کے پاس تھا جنہوں نے 2011 میں بنگلہ دیش کے خلاف 185 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔اس سے قبل پاکستان کے کسی بھی کھلاڑی نے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 150 رنز سے زائد کی اننگز نہیں کھیلی۔
فخر زمان کا کرئیر اگرچہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے مگر وانڈررز کرکٹ گراؤنڈ کی یہ اننگز ان کی نشاطِ ثانیہ کا علمبردار تھی۔ جدوجہد کے وہ تمام لمحات جب فخر زمان اپنی ہستی کا ثبوت دینے کی کوشش کر رہے تھے، یہ اننگز ان سبھی سوالوں کا جواب ہو سکتی تھی۔فخر زمان کبھی دفاعی انداز اختیار کرتے نظر آئے تو کبھی جارحانہ انداز اختیار کرتے۔ وہ آج کا میچ اس طرح کھیل رہے تھے کہ جیسے خود انہوں نے اکیلے ہی ہدف حاصل کرنا ہے۔ اور کچھ ہوا بھی یوں کہ جب تک وہ کریز پر رہے جنوبی افریقاکی ٹیم کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں رہے۔فخر زمان کا کہنا ہے کہ میں اپنی غلطی سے رن آوٹ ہوا ۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ بدقسمت رہے کہ اچھا آغاز نہیں مل سکا، یہ میری ذمہ داری تھی کہ گیند پر نظر رکھتا کہ گیند کدھر آرہی ہے میں حارث روف کو دیکھ رہا تھا، میری غلطی تھی، قوانین کے حوالے سے جو باتیں ہیں وہ میچ ریفری دیکھیں گے، فخر زمان نے کہا کہ اگرکوئی بیٹسمین ساتھ ہوتا تو ہدف آسان ہوجاتا۔ جنوبی افریقا کے وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک نے چالاکی سے رن آوٹ کیا۔ کرکٹ کے قانون میں فیک فیلڈنگ کا قانون موجود ہے لیکن امپائروں نے اسے نظر انداز کردیا۔ڈی کوک نے فخر کی توجہ دوسری جانب کی اور غلطی فہمی کی وجہ سے رن آوٹ ہوا۔
فخر زمان نے کہا کہ مجھے میچ نہ جتوانے کا افسوس ہے میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ آخر تک جاؤں ، ایک سائیڈ پر بانڈری چھوٹی تھی میں اس ہی کو ٹارگٹ کیااس لئے اس اننگز کو اپنی زندگی کی بہترین اننگز نہیں کہہ سکتا۔میں نے پوری کوشش کی اور آخر تک فائٹ کیا۔وانڈررز میں عام طور پر سنچری بنانا آسان نہیں ہوتا لیکن فخر زمان نے اس گراونڈ پر سب سے بڑی ون ڈے اننگز کھیلی۔ اس سے قبل ہرشل گبز نے آسٹریلیا کے خلاف 175رنز بنائے تھے۔فخر زمان نے اس گراونڈ پر پاکستان کی پاکستان کی جانب سے پہلی سنچری بنائی۔
یہ جنوبی افریقا کے خلاف کسی بھی پاکستانی کی سب سے بڑی اننگز ہے۔فخر زمان نے رن چیز میں سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلی،ان سے قبل سب سے بڑی انفرادی اننگز 185 رنز کے ساتھ شین واٹسن نے کھیلی تھی۔پاکستانی کپتان بابر اعظم نے کہا کہ میں نے اس سے اچھی ون ڈے اننگز نہیں دیکھی جب تک فخر موجود تھا مجھے یقین تھا کہ ہم جیت جائیں گے لیکن بدقسمتی سے وہ اکیلے یہ پہاڑ سر نہیں کرسکتا تھا دوسرے بیٹسمینوں کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔جنوبی افریقا کے کپتان باووما نے کپتان کی حیثیت سے پہلی جیت حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ جیت کر خوشی ہے کہ سیریز میں واپس آگئے ، فخرزمان نے ناقابل یقین اننگز کھیلی، پاکستان نے جنوبی افریقا کے خلاف آخری ون ڈے سیریز آٹھ سال پہلے جیتی تھی ایسےمیں جبکہ میزبان ٹیم کے پانچ میچ ونر نہیں ہیں پاکستان سیریز جیت سکتا ہے بلکہ ٹی ٹوئینٹی سیریز میں بھی اس کی جیت کے امکانات روشن ہیں۔ اس وقت کپتان مصباح الحق تھےبابر اعظم کا کہنا ہے کہ تیسراا میچ جیت کر ون ڈے میچ جیتنا چاہتے ہیں۔
پہلے میچ میں کپتان بابراعظم نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 104 گیندوں پر سنچری مکمل کی تھی۔بابراعظم کی اننگز میں 17 چوکے شامل تھے اور وہ 103 رنز بنا کرآوٹ ہوئے تھے۔لیکن انہیں میچ فنش کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی،بابر اعظم کی ایک روزہ کرکٹ میں 13 ویں سنچری تھی جو انہوں نے اپنے 76 ویں انٹرنیشنل میچ میں اسکور کی۔
سابق جنوبی افریقی بیٹسمین ہاشم آملانے 13 سنچریوں کا کارنامہ اپنے 83 ویں میچ میں سرانجام دیا تھا جبکہ بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے اپنی 13 ویں ایک روزہ سنچری 86 ویں میچ میں مکمل کی تھی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ سے قبل ایسی ٹیم تشکیل دینا ہے جو بڑے ٹورنامنٹ میں بھارت،آسٹریلیا،انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کا ٹکر دے۔
ایسے میں جبکہ پاکستان سپر لیگ سکس میں بد انتظامی کی رپورٹ پی سی بی کے پاس پہنچ ہے۔اس سیریز کا نتیجہ کرکٹ بورڈ کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے کیوں کہ بد انتظامی میں بورڈ کے بعض افسران بھی براہ راست ملوث ہیں۔یہ رپورٹ اور سیریز کا نتیجہ پی سی بی حکام کے لئے اہم ہوگا۔