بابر اعظم کو جب تینوں فارمیٹ کا کپتان بنایا گیا تو اس وقت بہت سارے ماہرین اور ٹیسٹ کرکٹرز کی رائے تھی کہ یہ فیصلہ پی سی بی کے لئے ٹائی ٹائینک ثابت ہوگا۔وہ دنیا کے ٹاپ کلاس بیٹسمین تو بن چکے تھے لیکن ان کی کپتانی کے بارے میں سوالات اٹھ رہے تھے۔بظاہر سادہ اور کم گو بابر اعظم جب میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو اپنی بات کو سمجھانے میں ناکام رہتے ہیں۔لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ بابر اعظم میں ایک اچھاکپتان بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
جنوبی فریقا میں وہ ایک مختلف کپتان دکھائی دیئے جس نے اپنی بیٹنگ سےفرنٹ سے لیڈ کیا ، ان کے فیصلوں کی جھلک گر اونڈ میں دکھائی دی۔ جو لوگ بابر اعظم کو ڈمی اور ریمورٹ کنٹرول کپتان کہہ رہے تھے ان کی بات بھی غلط ثابت ہوئی۔چند ہفتے قبل یونس خان نے کہا تھا کہ جب وہ خود کپتان تھے تو اس وقت بھی ان کے اردگرد چار پانچ کپتان ہوا کرتے تھے اور یہ کہ بابراعظم سے جب بھی ان کی بات ہوتی ہے اور وہ انھیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پہل کریں اور خود اپنے فیصلے کرنا سیکھیں۔ وہ (بابر) فیصلے لیتے بھی ہیں تاہم بعض اوقات ہمیں ایسا لگتا ہے کہ شاید ڈریسنگ روم سے بہت زیادہ لوگ انہیں قائل کرنے کی کوشش کر ر ہیں، بابر اعظم کو فیصلے کرتے ہوئے ڈرنا نہیں چاہیے۔
ون ڈے سیریز کے بعد اب پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئینٹی سیریز میں جنوبی افریقا کا مقابلہ کررہی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنوبی افریقا کی ٹیم میں ان کے پانچ مین کھلاڑی نہیں ۔شائد وہ یہ بھول گئے کہ سنچورین کے پہلے ون ڈے میں پاکستان نے ان کی مین ٹیم کو شکست دی۔پھر جنوبی افریقا کی موجودہ ٹیم بھی کمزور نہیں ۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقا کو ہوم گراونڈ پر پہلے ٹیسٹ اور پھر ٹی ٹوئینٹی میں شکست دی اب جنوبی افریقا کو اس کی سر زمین پر ون ڈے سیریز میں شکست دینا معمولی بات نہیں ۔ جنوبی افریقا نے ہوم گراونڈ پر اپنی آخری سیریز میں آسٹریلیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔ حالیہ سیریز میں بابراعظم نے واضح کر دیا کہ وہ ڈریسنگ روم سے نہ مشورے لیتے ہیں نہ ہی وہاں سے پیغامات آتے ہیں۔
بابراعظم کہتے ہیں کہ میدان میں ان کے ساتھ سینیئر کرکٹرز موجود ہیں اور انھیں جب بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ ان کے پاس جاتے ہیں یا سینیئر کرکٹرز کو جب محسوس ہوتا ہے تو وہ ان کے پاس آتے ہیں، یہ سیکھنے کی بات ہے ، میں سیکھ رہا ہوں۔ یہ باتیں مددگار ثابت ہوتی ہیں کہ فیلڈ میں کس طرح کام چلانا ہے۔
فیصلے ان کے اپنے ہوتے ہیں۔بلاشبہ بابر اعظم دن بدن بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ورلڈ کپ سپر لیگ میں پاکستان کی اگلی سیریز انگلینڈ کیخلاف جولائی میں ہوگی ۔میزبان بھارت کے علاوہ سپر لیگ کی ٹاپ 7 ٹیمیں 2023 ورلڈ کپ میں براہ راست جگہ حاصل کریں گی۔اب پاکستان کو جولائی میں انگلینڈ کے خلاف تین ون ڈے میچ کھیلنا ہیں۔
پاکستان نے2013میں مصباح کی قیادت میں پروٹیز کو اس کی سرزمین پر سیریز میں شکست دی تھی۔جنوبی افریقا کے خلاف سیریز میں جس طرح میزبان ٹیم کے پانچ مین کھلاڑی سیریز چھوڑ کر آئی اپی ایل میں چلے گئے اس پر شاہد خان آفریدی نے جو سوالات اٹھائے ان میں وزن ہے۔شاہد آفرید ی کا کہنا ہے کہ کرکٹ جنوبی افریقاکے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کی اجازت دیناحیران کن ہے۔
کرکٹ کی عالمی تنظیم ایک جانب بھارت سے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ منتقل کرنے کی باتیں کررہی ہے دوسری جانب بھارتی لیگ کی وجہ سے اور پیسے کی کشش کی وجہ سے انٹر نیشنل سیریز کا متاثر ہونا بہت سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے۔بابر اعظم کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقا جیسی بڑی ٹیم کو ہرانا اہمیت رکھتا ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ جنوبی افریقا سےٹی ٹوئینٹی سیریز بھی آسان نہیں ، پاکستان جس طرح کھیل رہا ہے وہ اپنے سب سے پسندیدہ فارمیٹ میں بھی کامیابی حاصل کرسکتا ہے ۔