وفاقی وزیر غلام سرور نے انکشاف کیا ہے کہ مستعفی ہونے کا فیصلہ زلفی بخاری کا تھا، جسے پارٹی میں سراہا بھی نہیں گیا۔
جیونیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ پہلی بار حکومت نے اپنے پروجیکٹ کی انکوائری کروائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان میں کہا تھا کہ نیب کی انکوائری کو ویلکم کرتا ہوں، تین بار جن کی حکومت رہی، ان کے خلاف انکوائری ہوتی ہے تو وہ چیختے کیوں ہیں۔
غلام سرور نے مزید کہا کہ میں نے سیاست عبادت اور خدمت سمجھ کر کی ہے، میرے متعلق پروجیکٹ اور الائنمنٹ کی انکوائری کرائیں میں تیار ہوں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے ترجمان کے الزام کے بعد ضروری ہوگیا تھا کہ میں بات کروں، مجھے غصہ تھا کہ چور اٹھ کر مجھے چور کہہ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ کہیں ریکارڈ میں نہیں کہ رنگ روڈ منصوبے کی منظوری ان کے دور میں ہوئی، وزیراعظم نے سنجانی اسلام آباد روڈ کنیکٹ کرنے کی منظوری دی۔
انہوں نے کہا کہ تمام سوسائیٹیز نے معمول کے مطابق درخواست دی اور ان کو این او سی ملی، میری یا میرے خاندان کی کوئی زمین اس الائنمنٹ میں نہیں۔
غلام سرور نے کہا کہ الزام لگانے پر عطاء تارڑ سمیت 2 افراد کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کررہا ہوں، میرے خلاف ثبوت دیں، ریفرنس دائر کریں کوئی تو چیز سامنے لائیں۔
اُن کا کہنا تھاکہ رنگ روڈ کے الائمنٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں یہ پروجیکٹ مکمل ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے ن لیگی قیادت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا میں جائیدادیں اور بینک بیلنس بنایا کیا پانامہ چھوٹا اسکینڈل ہے؟ انہیں شرم نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کیسز بھگت رہے ہیں، وہ اب بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں، تحریک انصاف نے بھی یقینی بنایا ہے کہ کسی سے زیادتی نہ ہو۔
غلام سرور نے کہا کہ میں عمران خان کے ساتھ اس لیے ہوں کہ وہ ایماندار ہیں، پاکستان مسلم لیگ نے دیا لیکن جو پاکستان کے ساتھ اس مسلم لیگ ن نے کیا ان کے خلاف ہوں۔
اُن کا کہنا تھاکہ میں نے پیپلز پارٹی کو بھی چھوڑا تو اصولوں کی بنیاد پر چھوڑا، اپوزیشن کو حق ہے انکوائری کے لیے نیب یا کسی کورٹ جاسکتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو کل اسمبلی میں لے کر آجائیں۔