خدشات اور قیاس آرائیاں اب ختم ہورہی ہیں۔پاکستان سپرلیگ کی راہ میں حائل تمام روکاوٹیں اب دور ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں شیخ زائد اسٹیڈیم ابوظہبی اب پی ایس ایل سکس کے بقیہ میچ کرانے کے لئے تیار ہے۔سابق کپتان سرفراز احمد کراچی ایئرپورٹ سے آف لوڈ ہوکر ابوظہبی روانہ نہ ہوسکے مگر اب ان کے جانے کے امکانات ہوگئے ہیں۔
ایمیگریشن حکام نے سفری دستاویز مکمل نہ ہونے کی وجہ سےجانے کی اجازت نہیں دی ، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر نے ان کے بغیر کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔فاسٹ بولر محمد حسنین کراچی سے براستہ دوہا روانہ ہوگئے۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد اور لاہور کے تمام دس افراد کو ابوظہبی کے سفر کے لیے کلیئرنس نہ مل سکی۔
ان کی کلیئرنس کے لیے پی سی بی کا ابوظہبی اسپورٹس کونسل سے رابطہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے تو پی سی بی کے معاملات حل کرادیئے ۔دو سال قبل پی سی بی نے علان کیا تھا کہ اب پاکستان اپنی کوئی سیریز اور پی ایس ایل بیرون ملک نہیں کرائے گا۔لیکن کورونا کی وبا نے اس ٹورنامنٹ کو واپس وہیں پہنچا دیا،جہاں سے2016میں یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا۔مارچ میں جب کراچی میں یہ ٹورنامنٹ روکا گیا تھا اس وقت14میچ ہوئے اور بیس میچ باقی تھے۔
پاکستان سپر لیگ کے برانڈ کو بچانا شائد اس انداز میں مقصود نہیں تھا جس طرح کی خبریں اس ٹورنامنٹ سے گذشتہ تین چار ہفتوں سے جڑی ہوئی ہیں جس نے اس کی ساکھ اور پی سی بی کی انتظامی صلاحیت کو نقصان پہنچایا، کھلاڑیوں اور تماشائیوں کا موران ڈائون کیا۔ جلد بازی میں ٹورنامنٹ بیرون ملک کرانا ضروری تھا۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو گھر جاتے جاتے اپنے آپ کو منوانے کی جلدی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کے تین سالہ عہدے کی معیاد ستمبر میں ختم ہورہی ہے۔چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کو معاہدے میں توسیع چا ہئے لیکن ان کی مدت بھی فروری میں ختم ہورہی ہے۔
اگلے سال جنوری میں پی سی بی ،پی ایس ایل سیون کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اکتوبر میں انگلینڈ اور نومبر میں نیوزی لینڈ کوپاکستان آنا ہے۔جنوری میں پی ایس ایل اس لئے کرایا جائے گا تاکہ پاکستان فروری میں آسٹریلیا کی میزبانی کرسکے۔وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ،لیکن احسانی مانی اور وسیم خان کے لئے اگلے چند ماہ میں چیلنج زیادہ سخت ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کا خاتمہ کرکے کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔
یہ وزیر اعظم عمران خان کا وژن ضرور تھا لیکن نئے آئین کے کئی پہلووں پر عمل کرنے سے قبل ڈپارٹمنٹس کو بند کرنا درست قدم نہ تھا۔اسی دوران دو سال سے ملک میں کلب کرکٹ بند ہے۔گراس روٹ کا سسٹم نئے نظام کے تحت بحال نہیں ہوسکا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ احسان مانی کو توسیع دے کر اس نئے نظام کے ثمرات کو حاصل کئے جائیں۔ پی سی بی کی گورنس پر بار بار سوالات اٹھائے جاتے ہیں،بدانتطامی پر قابو پانے کے دعوے تو ضرور کئے جاتے ہیں لیکن بدانتظامی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔پی ایس ایل سکس کا ابوظہبی منتقل ہونا کیسا فیصلہ ہے اس کا جواب شائد وقت ہی دے گا لیکن اس لیگ کے بقیہ میچ جلدبازی کے بجائے بہتر انداز میں کرائے جاتے تو بہتر تھا۔ پی سی بی کو شائد مزید پروفیشنل ہونے کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے افسران کو شائد زیادہ پروفیشنل کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیا برطانیہ میں اس انداز میں کام کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو پاکستان سپر لیگ کے بقیہ میچ ابوظہبی میں منعقد کرنے کی منظوری مل گئی۔اس کے باوجود دوہفتوں سے ٹورنامنٹ کے حوالے سے اچھی خبریں سامنے نہیں آسکیں۔کبھی براڈ کاسٹ کریو کامسئلہ سامنے آیا اور کبھی 25پاکستانی کھلاڑیوں کے ویزوں کا معاملہ درپیش رہا۔20مئی کو دعوی کیا گیا تھا کہامارات کی حکومت کی طرف سے تمام معاملات پر مکمل منظوری مل گئی ہے اور تمام فرنچائز مالکان کے ساتھ اجلاس کے بعد ایونٹ کے انعقاد سے متعلق انتظامات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ بورڈ حکام کئی روز سے ابوظہبی میں موجود تھے ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکیٹو وسیم خان کا کہنا ہے کہ ابوظہبی میں ایونٹ کے انعقاد کے سلسلے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہو گئی ، بورڈ ایونٹ کے انعقاد کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔لیکن پیر تک صورتحال زیادہ اچھی نہیں تھی۔
ٹورنامنٹ کب شروع ہوگا اور شیڈول کااعلان کب ہوگا اس بارے میں جب یہ تحریر لکھی جارہی تھی صورتحال واضع نہیں تھی۔پی ایس ایل کے بعد پاکستانی ٹیم کو انگلینڈجانا ہے ، دوسری مرتبہ لیگ ملتوی ہونے کی صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ اسے ری شیڈول کرے کیونکہ اس سال اس کا انٹرنیشنل کلینڈر مصروف ہے۔
اکتوبر میں اسے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کھیلنی ہے۔ پھر اکتوبر نومبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو گا اس کے بعد پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش جائے گی اور پھر ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئے گی۔ ستمبر میں پاکستانی ٹیم کو افغانستان کے خلاف صرف محدود اوورز کی سیریز کھیلنی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے چھ فرنچائز ٹیموں کے مالکان کے ساتھ رابطے میں رہنے کے بعد پی ایس ایل کے باقی ماندہ میچوں کو جون میں کراچی میں ہی منعقد کرانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ملک میں کووڈ کی مجموعی خراب صورتحال کے پیش نظر حکومت نے لیگ یہاں منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک راستہ تھا کہ وہ اس ایونٹ کو متحدہ عرب امارات لے جائے۔
پاکستان سپر لیگ کے مارچ میں ملتوی کیے جانے کے بعد یہ بات یقینی ہو گئی تھی کہ اگر یہ لیگ دوبارہ ہوئی تو اس میں شامل غیرملکی کرکٹرز اپنی بین الاقوامی مصروفیات کے سبب شامل نہیں ہو سکیں گے لہذا پاکستان کرکٹ بورڈ نے گذشتہ ماہ متبادل کھلاڑیوں کا ڈرافٹ تیار کیا تھا جس کے ذریعے نئے غیرملکی کھلاڑیوں کی شمولیت ہوئی تھی۔
لیگ کے جون میں ہونے کی صورت میں جن نئے کھلاڑیوں کو چھ ٹیموں نے اپنے سکواڈ میں شامل کیا تھا ان میں قابل ذکر نام افغانسان کے راشد خان ،جنوبی افریقا کے فاف ڈپلویسی ،ڈیوڈ ملر،کیمرون ڈیل پورٹ نیوزی لینڈکے مارٹن گپٹل، ویسٹ انڈیز کے آندرے رسل، سری لنکا کے تشارا پریرا، اور آسٹریلیا کے عثمان خواجہ ہیں۔
بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، لٹن داس اور محمود اللہ بھی پی ایس ایل کھیلنے والے تھے لیکن انھوں نے بعد میں یہ کہہ کر دستبرداری اختیار کر لی کہ وہ ڈھاکہ پریمیئر لیگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔پاکستان سپر لیگ کا تنازع طول پکڑ رہا ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔اگر یہ ٹورنامنٹ وقت پر خوش اسلوبی سے ختم ہوگیا تو پی سی بی کو بڑی کامیابی مل سکتی ہے لیکن اس وقت تک معاملات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔