پاکستان کرکٹ بدستور منفی خبروں میں ہے۔پاکستان سپر لیگ کو ابوظہبی لے جاکر پی سی بی نے جس طرح بد انتظامی کے نئے ریکارڈ قائم کئےاس کے بعد میڈیا کی جانب سے تنقید فطری بات تھی۔لیکن اپنی ڈوبتی کرسی کو سہارا دینے کے لئے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کراچی پریس کلب آکر آزادی صحافت کا بڑا پرچار کرتے تھے اب وہ صحافت اور صحافی کے بارے میں جو الفاظ استعمال کررہے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔
وسیم خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا کا خیال تھا کہ میں چھ ماہ میں برطانیہ واپس بھاگ جائوں گا۔ ماضی کے بورڈز صحافیوں سے بلیک میل ہوتے تھے مجھ سے معلومات حاصل کرنے کے لئے پیغامات بھیجے جاتے ہیں جب میں انہیں خفیہ معلومات فراہم نہیں کرتا تو وہ میری کردار کشی کرتے ہیں۔میں پاکستان کرکٹ کی خدمت کے لئے آیا ہوں لیکن نام نہاد صحافی ٹی وی شوز میں بیٹھتے ہیں۔جو کرکٹ سے زیادہ ذاتیات پر بات کرتے ہیں۔
یہ صحافی نہیں مافیا ہیں جن سے لوگ ڈرتے ہیں۔وسیم خان نے کہا کہ مجھے پاکستان کے90فیصد شائقین کی حمایت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی صحافی کرکٹ پر بات نہیں کرتے۔ دوسرے ملکوں کے صحافی مجھے میسج بھیجتے ہیں کہ آپ کے میڈیا پر کیا سرکس لگا ہوا ہے۔جوکر بیٹھ کر کرکٹ پر بات کرتے ہیں۔
میں ان کی باتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔انہوں نے دعوی کیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کرکٹ پر باتیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔کبھی میری تنخواہ اور کبھی میری ذاتی زندگی پر حملےکرتے ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی کے دو بچے برطانیہ میں پڑھتے ہیں وہ میری شہریت اور ذاتی زندگی پر بات کرنے سے پہلے اپنے بچوں کو پاکستان بلائیں۔ ایک صحافی کے پیغاموں کا جواب نہیں دیا۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ وہ جس طرح کے شوز کرتے ہیں اگر وہ نہ کریں تو کیا کریں۔ میری تنخواہ کو ایشو بنایا جاتا ہے۔ ٹیم کی کارکردگی کے بجائے میری کارکردگی پر بات ہوتی ہے۔
پاکستان میں تین چار وہ لوگ ہر وقت کرکٹ پر بات کرتے ہیں جنہوں نے زندگی میں کرکٹ نہیں کھیلی۔وسیم خان نے کہا بد انتظامی کا الزام ہم پر اس وقت دیں جب چیزیں ہمارے ہاتھ ہوں۔ ان کی یہ باتیں اس وقت سامنے ائی ہے جب کل بدھ سے پی ایس ایل کے نا مکمل مقابلے ابوظبی میں شروع ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ چیزیں پی سی بی کے ہاتھ میں نہیں تھی، بعض فیصلے ابوظہبی حکومت کے ہاتھ میں تھیں۔ ہم نے شروع ہی میں تین چار شیڈول تیار کئے ہوئے تھے ۔پی ایس ایل برانڈ کیلئے ضروری تھا کہ پی ایس ایل چھ مکمل ہوتا۔جو بھی اضافی اخراجات ہیں وہ پی سی بی کو برداشت کررہا ہے۔ پی ایس ایل ہونا بہت ضروری تھا۔
اس بار ہماری آمدن میں کمی ہوگی لیکن نقصان نہیں ہورہا ۔جب تک یہ فرنچائز منافع میں نہیں آئیں گی ساتویں ٹیم نہیں لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل کا بزنس پلان تبدیل کررہے ہیں۔کیا یہ محض اتفاق تھا کہ جب پی سی بی کے حکام خاص طور پر وسیم خان پر پی ایس ایل کی بدانتظامی کو لے کر تنقید کی جارہی تھی۔اچانک چند گھنٹوں کے نوٹس پر پاکستان ٹیم کا اعلان ہوگیا۔ لیکن وسیم خان نے جس طرح مخصوص صحافیوں کو انٹر ویو دئیےاور صحافیوں کو آڑے ہاتھوں لیا شاید ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے دوروں کے لیے ٹی ٹوئنٹی سکواڈ کا اعلان کیا ہے تو اس میں سابق کپتان معین خان کے بیٹے اعظم خان کا نام بھی شامل تھا۔اعظم خان کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر دو سال پہلے دعوی کیا تھا کہ وہ کرس گیل سے بڑا بیٹسمین بنے گا۔
پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پاور ہٹر 22 سالہ اعظم خان کو پی سی بی کی جانب سے 'ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کا نیا چہرہ کہا گیا ہے۔ انھوں نے اب تک کسی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشل میچ میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کی۔پاکستان کے سابق کپتان اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کوچ معین خان کے بیٹے اعظم خان نے کرکٹ میں اپنے کیریئر کا آغاز ٹیپ بال سے کیاتھا۔
تعلیمی اعتبار سے اعظم خان نے او لیول کیا ہے لیکن اب ان کی تمام تر توجہ کرکٹ پر ہے اور ایک پروفیشنل کرکٹر کی حیثیت سے وہ اپنا کریئر بنانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ کرکٹ کے علاوہ انھیں گٹار بجانا اور مچھلیاں پکڑنا پسند ہے۔ایک طویل عرصے تک پاکستان کو محدود اوورز کی کرکٹ میں پاور ہٹر درکار رہا ہے جو میچ کو آخری گیند تک لے جا سکے اور جس پر بھروسا کیا جاسکے کہ وہ ڈگمگاتی بیٹنگ لائن اپ کو سہارا دے سکتا ہے۔آصف علی،خوش دل شاہ اور افتخار احمد کی ناکامی کے بعد انہیں موقع ملا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی نے دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز میں شامل 3 ون ڈے، 2 ٹیسٹ اور 8 ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کے لیے قومی ٹیموں کا اعلان کردیا ہے۔ اعلان کردہ اسکواڈز میں چار کھلاڑیوں، حارث سہیل اور عماد وسیم کی بالترتیب قومی ون ڈے انٹرنیشنل اور قومی ٹی ٹونٹی اسکواڈز جبکہ محمد عباس اور نسیم شاہ کی قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں واپسی ہوئی ہے۔
مڈل آرڈر بیٹسمین اعظم خان کو پہلی مرتبہ قومی ٹی ٹونٹی اسکواڈ جبکہ سلمان علی آغا کو قومی ون ڈے انٹرنیشنل اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔لیگ اسپنر یاسر شاہ تاحال گھٹنے کی انجری سے صحتیاب نہیں ہوسکے، لہٰذا ان کی قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں شمولیت فٹنس سے مشروط رکھی گئی ۔
انہیں انجری کی وجہ سے زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈ سے باہر کیا گیا تھا۔ محمد عباس کاونٹی کرکٹ کھیل کر آئے ہیں ان کے علاوہ کس کھلاڑی نے کیوں کم بیک کیا ہے اس بارےمیں کسی کو کچھ علم نہیں ہے البتہ شعیب ملک اور وہاب ریاض کو شامل نہ کرکے سلیکٹرز نے واضع پیغام دیا ہےاسپنرز نعمان علی، ساجد خان اور زاہد محمود کو بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں برقرار رکھا گیا ہے۔لیفٹ ہینڈ بیٹسمین فخر زمان جنہیں جنوبی افریقاکے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں عمدہ کارکردگی کی بدولت قومی ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں بطور اضافی کھلاڑی شامل کیا گیا تھا، انہیں بھی قومی ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں برقرار رکھا گیا۔
دورے کے لیے اعلان کردہ قومی ون ڈے اور ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل اسکواڈز بالترتیب18 اور 19 کھلاڑیوں پر مشتمل ہیں۔ ان دونوں اسکواڈز میں 13 کھلاڑی ایسے ہیں جو دونوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں مجموعی طور پر 21 کھلاڑی شامل ہیں۔ ان 21 میں سے 8 کرکٹرز ایسے ہیں جو تینوں فارمیٹ میں قومی اسکواڈ کی نمائندگی کررہے ہیں۔چیف سلیکٹر محمد وسیم کی فلمی انداز میں ایک ویڈیو وائرل کی گئی ہے جس میں وہ کھلاڑیوں کو فون کرکے ٹیم سے ڈراپ ہونے اور ٹیم میں شامل ہونے کا بتارہے ہیں۔یہ ویڈیو ٹیم اعلان ہونے کے بعد ریکارڈ کی گئی کیوں کہ اعظم خان کہتے ہیں کہ انہیں تو ٹیم میں شمولیت کا کوئٹہ کے واٹس ایپ گروپ سے پتہ چلا۔
قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم کا کہنا ہے کہ ہم نے سلیکشن میں تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئےانہی کھلاڑیوں کو قومی اسکواڈز میں شامل کیا ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈکپ سپر لیگ کے تین میچز کےعلاوہ آئی سی سی مینز ٹی ٹونٹی ورلڈکپ سے قبل انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف مجموعی طور پر آٹھ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کی وجہ سے ہمارے لیے ان دونوں ممالک کے دورے بہت اہم ہیں۔
محمد وسیم نے کہا کہ کپتان بابراعظم اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کی مشاورت سے انہوں نے وننگ کمبی نیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چار سینئرکھلاڑیوں کو دوبارہ قومی اسکواڈز میں شامل کرلیا ، چیف سلیکٹر نے مزید کہا کہ محمد عباس کو اپنی کھوئی ہوئی فارم واپس حاصل کرنے، نسیم شاہ اور حارث سہیل کوفٹنس کے معیارمیں بہتری لانےپر منتخب کیا گیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ان چاروں کھلاڑیوں کی واپسی کی وجہ سے ہمیں چند کھلاڑیوں کو اسکواڈ سے ڈراپ کرنا پڑا ہے جوکہ آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن ہم نے کنڈیشنز اور مخالف ٹیموں کے کمبی نیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم کے بہترین مفاد میں مشترکہ فیصلے کیے ۔
محمد وسیم نے کہا کہ جو کھلاڑی قومی اسکواڈ سے باہر ہوگئے ہیں وہ ہمارے پلانز کا حصہ رہیں گے، وہ اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لیے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں ثقلین مشتاق اور محمد یوسف جیسے نامورکرکٹرز کی زیرنگرانی تربیت حاصل کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ لیگ اسپنر یاسر شاہ اپنا ری ہیب مکمل کرکے ٹیسٹ اسکواڈ کی ویسٹ انڈیز روانگی سے قبل مکمل طور پر فٹنس بحال کرلیں گے۔
بلاشبہ جنوبی افریقاکے خلاف سیریز سے لے کر اب تک ہماری ٹیم متعدد کامیابیاں حاصل کرچکی ہے تاہم اب بھی ہمیں چند شعبوں میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے، پرامید ہیں کہ دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز اس ضمن میں معاون ثابت ہوں گے۔انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے دورے یقینی طور پر آسان نہیں ہوں گے کیوں کہ یہ مشکل دورے کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔