خواجہ معین الدین اُردو ڈرامے یا تمثیل کا ممتاز اور نمایاں نام ہے۔ ماچ 1924ء کو حیدرآباد دکن کے متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں حیدرآباد علم و اَدب کابڑا مرکز شمار کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے اس دور میں برصغیر کے اہلِ علم، اہلِ قلم اور اہلِ دانش کا بہت بڑا حلقہ حیدرآباد میں سمٹ آیا تھا۔ خواجہ معین الدین نے اس علمی گہما گہمی کے ماحول میں آنکھ کھولی۔
جامعہ عثمانیہ سے 1946ء میں بی اے کی سند حاصل کرنے کے بعد دکن ریڈیو کے لئے ڈرامے اورخاکے لکھنے شروع کیے۔ اسی دور میں وہ ’’گنبد کی آواز‘‘ کے عنوان سے ڈرامے لکھنے لگے۔اسی دوران اسٹیج کے لئے بھی ڈرامے تحریر کئے،مگر 1948ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد مسلمانوں کی تہذیب کا گہوارہ ماند پڑ گیا۔
گنگا جمنی تہذیب کا آخری نشان معدوم ہوگیا۔ ایسے میں ہر فرد حیران پریشان اپنے مستقبل کے لئے ہراساں تھا۔ اس دور میں خواجہ معین الدین نے سقوط حیدرآباد تحریر کیا مگر ان کا اس افراتفری کے ماحول میں دِل نہ لگا،سو وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کراچی آ گئے۔ یہاں آ کر خواجہ معین الدین نے جامعہ کراچی سے اُردو میں ایم اے کیا،ساتھ درس و تدریس میں بھی مصروف ہوگئےاور ڈرامہ لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ 1951ء میں خواجہ معین الدین نے صدائے کشمیر لکھا۔ یہ پلے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کا ترجمان تھا۔1952ء میں ڈرامہ ’’لال قلعے سے لالو کھیت‘‘ لکھا۔ یہ کراچی کی سماجی، معاشرتی اور تہذیبی عروج و زوال کے پس منظر میں تھا۔ 1954ء میں خواجہ معین الدین کا شہرۂ آفاق ڈرامہ ’’تعلیم بالغاں‘‘ اسٹیج پر پیش ہوا۔
اُردو ڈرامے میں اتنا پُرمزاح ڈرامہ،جس کے ہر مکالمے اور ایکشن پر ہال قہقہوں سے گونج اُٹھے، نہیں لکھا گیا۔ کراچی میں مختلف مقامات، درس گاہوں میں ڈرامہ اسٹیج ہوا۔ ہر شو کامیاب رہا۔ ملک اور ملک سے باہر جہاں جہاں یہ اسٹیج ہوا کامیابی کے ریکارڈ بنائے۔ پاکستان کے ڈرامہ اور فکشن تنقید نگاروں کی رائے میں یہ ڈرامہ پاکستان کا پہلا کلاسک ڈرامہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بالغان کی تعلیم ایک منفرد موضوع ہے اس میں جو کردار شامل کئے گئے اور موضوع کی مناسبت سے جو برجستہ مکالمے ادا کئے گئے یہ سب کمال کی تخلیق ہے۔
درحقیقت اُردو میں تمثیل نگاری کی روایت زیادہ پُرانی نہیں ہے۔ داستان گوئی، قصہ کہانیاں عام ہوا کرتی تھیں۔ ہندی میں دیومالائی کہانی اوراسٹیج پر ناٹک کی روایت عام رہی۔ مذہبی قصّے کہانیاں اسٹیج پر لوگ دیکھتے پسند کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل سے اُردو میں ڈرامہ نگاری شروع ہوئی اور اسی میں اوّلین کردار معروف تمثیل نگار آغا حشر کاشمیری کا رہا۔ان کے ڈرامے کاسٹیوم، شاہی دربار، امراء کے قصّے اور کچھ سنسنی خیز ہوا کرتے تھے جیسے خوبصورت بلا، یہودی کی لڑکی اور اسیرِ حرص و دیگر۔خواجہ معین الدین نے جب کراچی ہجرت کی تو انہیں نئے ماحول، نئے لوگوں کے بیچ بہت کچھ نیا ملا جو ان کے لئے باعث دلچسپی بھی تھا اور سنسنی خیز بھی۔
ایسے ہی تجربات، مشاہدات اور کرداروں کو انہوں نےمرزا غالب بندر روڈ پر، لال قلعے سے لالو کھیت تک میں سمویا ہوا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اُردو ڈرامے کی یہ بڑی بدقسمتی رہی کہ خواجہ معین الدین عین اپنے عروج کے دور میں دُنیا چھوڑ گئے۔ خواجہ معین الدین زمانۂ طالب علمی سے ہی اپنے اطراف دوست احباب کا جمگھٹا پسند کرتے تھے اور دوست بھی ان کی بہت عزت کرتےتھے۔ ان احباب میں ایک شخصیت ان کے بہت قریب رہی۔
یہ عزیز کارٹونسٹ تھے۔ وہ بھی اپنے فن میں یکتاہی نہیں، چٹکلے جملہ بازی میں یکتاتھے، جب خواجہ صاحب اور عزیز کارٹونسٹ اکٹھےہو جاتے تھے تو ان کے اطراف دوستوں کا جمگھٹا جمع ہو جاتا تھا اور پھر شگوفوں، ہنسی کے غباروں اور قہقہوں کی بارات چل پڑتی تھی۔ سُننے والوں کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو جاتا۔ یہ اکثر مغرب کے بعد ٹھٹ لگتا تھا۔
اکثر دیگر نامی گرامی شخصیات بھی شریک ہو جایا کرتی تھیں، ان میں ابراہیم جلیس ضرور شامل ہوتے تھے ۔ کہا جاتا تھا کہ جب خواجہ معین الدین اور عزیز کارٹونسٹ موڈ میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے، طنز و مزاح کے تیر برساتے تو سُننے والا لوٹ پوٹ ہو جاتا مگر دُوسری طرف ابراہیم جلیس کا مشہور کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ تیار ہو جاتا تھا۔
ایک بار عزیز کارٹونسٹ سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو خواجہ معین الدین کا ذکر خیر چلا، اپنے عزیز دوست کی یاد میں اور ان کی پاکستان سے عقیدت والہانہ محبت کا ذکر کر کے پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ انہوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ 1971ء کا دور تھا، ریڈیو پاکستان، بی بی سی اور دیگر ذرائع سے سابق مشرقی پاکستان کے حالات کی خبریں آ رہی تھی۔
اس تمام عرصےمیں خواجہ اپنی ہنسی بھول گیا تھا اور ہر وقت پاکستان کی سلامتی، یکجہتی کی دُعائیں مانگتا رہتا تھا۔ پاکستان سے اس قدر محبت، اُنسیت اور پیار بقول عزیز کارٹونسٹ کے میں نے کسی میں نہیں دیکھا۔ خواجہ معین الدین کی حب الوطنی بے مثال تھی۔ وہ کہا کرتے تھے ہم نے ابھی حیدرآباد کھویا، اب اتنی سکت نہیں ہے کہ خدانخواستہ کوئی اور بُری خبر سن سکوں۔
ہر فن کار میں ایک حِس ایسی ہوتی ہے جو دُوسروں سے تیز ہوتی ہے، یہی حِس انہیں ہر وقت بے چین رکھتی تھی۔اس اثناء میں انہوں نے کوئی ڈرامہ بھی نہیں لکھا۔ساٹھ اور ستّر کی دہائی کا دور آج سے بہت مختلف تھا۔ لوگوں میں اپنائیت اور محبت کے جذبات بدرجہ اتم موجود تھے۔ گو مشکلات بہت تھیں آمدن زیادہ نہیں تھی مگر پھر بھی سفید پوشی اور وضع داری کا بھرم کسی طور نبھا لیتے تھے۔
خواجہ معین الدین کے ڈرامہ تعلیم بالغاں کو زیادہ تر ایک پُرمزاح پلے کہا جاتاہےمگر ملک کے ممتاز تنقید نگاروں کے نزدیک یہ ڈرامہ مزاح سے بھی بہت آگے ہے۔ اگر ڈرامہ کے کرداروں، مکالموں، ایکشن اداکاری پر الگ الگ غورکریں تو ہر مکالمہ ذومعنی نکلتا ہے اور جب ایمان، اتحاد اور تنظیم کی حالت زار پر نظر پڑتی ہے تو پھر پوری قوم کاسیناریو اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غرض اس ڈرامہ کی ہر چیز لاجواب، اداکاری بے مثال ہے۔
راولپنڈی کے سٹی گرامر اسکول میں سالانہ ڈرامہ فیسٹیول منعقد ہوا تھا تو اس میں صرف دو ڈراموں کا انتخاب ہوا تھا۔ ایک شکسپیئر کا ڈراما میکبیتھ اور دُوسرا خواجہ صاحب کا تعلیم بالغاں۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ خواجہ معین الدین کا ڈرامے کی دُنیا میں کیا مقام تھا۔ اگست 1971ء میں وہ اس دُنیا سے رُخصت ہوئے واقعی مزید بُری خبر سُننے کی اس مردِ حق میں سکت باقی نہ رہی تھی۔