• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: پاک بحریہ کے زیرِ انتظام سماعت ،بصارت سے محروم اور دیگر معذور بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ا سپیشل چلڈرن اسکول قائم ہے۔ ان میں سے بہت سے بچوں کے والدین اسکول کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے، اس لیے یا تو ان سے فیس نہیں لی جاتی یا بہت کم لی جاتی ہے۔ بچوں کے تعلیمی اور سفری اخراجات ، معذور بچوں کے لیے آلات ، اُن کا لباس ، کھیل کا سامان اور اساتذہ کی تنخواہ، یہ سب فیسوں سے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسکول کا نظام ایک بینک اکاؤنٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے ،کیا زکوٰۃ کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائی جاسکتی ہے اور اس زکوٰۃ کی رقم سے اسکول کے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں ؟ (حامد شیر محمد ،کراچی )

جواب:جب آپ مسلمانوں سے صدقاتِ واجبہ (زکوٰۃ ، فطرہ ، فدیہ ، کفارہ اور نذرکی رقوم ) جمع کرتے ہیں تو آپ زکوٰۃ دینے والوں کے وکیل ہوتے ہیں اور آپ کی شرعی ذمے داری ہوتی ہے کہ آپ زکوٰۃ کو اس کے شرعی مصارف پر صرف کریں، ورنہ آپ جوابدہ ہوں گے ۔ کئی رفاہی اداروں (مثلاً دعوتِ اسلامی )کے بینک اکاؤنٹ کا سافٹ ویر پروگرام اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ ان کے اکاؤنٹ میں جو رقم جمع کی جاتی ہے ، اس میں مختلف مَدّات لکھی ہوتی ہیں،جیسے صدقاتِ واجبہ ، عطیات وغیرہ اور رقوم جس مَدّ میں آتی ہیں، وہ اسی کھاتے میں جمع ہوتی ہیں ۔

آپ کے ادارے کی مَدّات یہ ہوسکتی ہیں: مثلاً ٹیوشن فیس یا اسکول فیس ، امتحانی فیس ، زکوٰۃ اور عطیات وغیرہ ۔پس آپ کو اپنے کھاتے میں زکوٰۃ یعنی صدقات واجبہ کا آمد وخرچکا کھاتہ الگ رکھنا ہوگا۔ لہٰذا زکوٰۃ کی مَد سے آپ نادار طلبہ کو آلات، کُتب ،لباس یا یونیفارم اوردیگر سامانِ ضرورت وغیرہ خرید کر مالکانہ بنیاد پردےدیا کریں، اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، کتابیں صرف پڑھنے کے لیے دینا یا یونیفارم پہننے کے لیے دینا یا سامان استعمال کے لیے دینا کافی نہیں بلکہ اس کا مالک بنانا ہوگا ۔ 

اس کے علاوہ نادار طلبہ کو نقد وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے ، اس میں سے وہ اپنی ٹیوشن فیس اور ٹرانسپورٹ کی اجرت ادا کرسکتے ہیں ۔ وہ طلبہ اپنے وظیفے میں سے ٹیوشن فیس کے طور پر جو رقم جمع کرائیں گے ،وہ اساتذہ اورملازمین کی تنخواہ اور یوٹیلیٹی بلز پر خرچ کی جاسکتی ہے ، نیز جو صاحب ِ حیثیت لوگوں کے بچے ہیں ، ان سے حاصل شدہ فیس بھی آپ اُس اکاؤنٹ میں جمع کریں گے اور ان سب کا مصرف طلبہ کی فلاح اور تعلیم کے لیے آپ کی صوابدید پر ہوگا ۔

زکوٰۃ صرف مستحق افراد کے لیے ہوتی ہے ، جس کی ادائی کے لیے شرعی فقیر کو مالک بناناضروری ہے ۔زکوٰۃ فنڈ سے صرف وہی طلبہ استفادہ کرسکتے ہیں، جو شرعی فقیر ہوں یعنی جس کے پاس قرض کی ادائی اورحاجتِ اصلیہ کے علاوہ نصاب کی مقدار مال موجود نہ ہو ، تنویرالابصارمع الدرالمختار میں ہے ’’فقیر وہ ہے جس کے پاس معمولی سامان ہو یعنی نصاب سے کم یا نصاب کی مقدار غیر نامی ،جو اس کی حاجت میں مشغول ہو ۔(حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد6) نابالغ بچوں میں اُن کے ولی (باپ)کا غنی یا فقیر ہونا معتبر ہے،یعنی غنی باپ کی نابالغ اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ 

علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں’’ غنی کی اولاد اگر نابالغ ہوتو اس کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اگرچہ وہ فقیر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نابالغ اپنے باپ کے غنی ہونے کی وجہ سے غنی شمار ہوگا اور اگر بالغ اولاد فقیر ہوتو اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں، کیونکہ اس کو اپنے باپ کی مالداری کی وجہ سے غنی شمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ اس کے مال میں اجنبی کی طرح ہوتا ہے۔(بدائع الصنائع ، ص:71)علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ غنی شخص کے نابالغ بچے کو زکوٰۃ دیناجائز نہیں ، ’’تبیین الحقائق ‘‘ میں اسی طرح ہے ۔(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1) غنی پر زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں:’’ جن کو صدقۂ واجبہ (زکوٰۃ وفطرہ )دے سکتے ہیں ، اُن کی کئی قسمیں ہیں، اُن میں سے ایک فقیر ہے ،غنی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے ۔ (بدائع الصنائع ، ص:64) تملیک یعنی مالک بنانا زکوٰۃ کا رُکن ہے۔ 

علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ اللہ تعالیٰ نے مال داروں کو (اپنے مال کی) زکوٰۃ اداکرتے وقت ملکیت میں دینے کا حکم فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور زکوٰۃ دو‘‘ ،اور ’’اِیْتَاء‘‘ کا معنیٰ تملیک اور مالک بناکر دینا ہوتا ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو صدقہ کہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:’’ صدقات فقراء کے لیے ہیں ‘‘، اور صدقہ کرنا تملیک کو کہتے ہیں ،(بدائع الصنائع ،جز ء ثانی ، ص:58) زکوٰۃ کی تملیک کی دو صورتیں ہیں : (۱) زکوٰۃ مستحق اور فقیر بچے یا ان کے سرپرست کے حوالے کردی جائے ، (۲) ان(مستحقِ زکوٰۃ ) پر جو رقم واجب الادا ہوگئی ہو ، اُن کی اجازت سے وہ زکوٰۃ کی نیت سے اداکردی جائے، اگر نادار بچہ نابالغ ہے تو اس کے ولی کی اجازت سے زکوٰۃ کی مَد ّ سے اس کے واجبات ادا کرسکتے ہیں ۔

تازہ ترین