آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے لیےہونے والے الیکشن نے کراچی میں بھی سیاسی ہلچل پیدا کی ورنہ عید قرباں اور کورونا کی وجہ سے گزشتہ ہفتے سیاسی سرگرمیاں قدرے ماند تھی سندھ بلوچستان اور پنجاب کے اضلاع پر مشتمل دو حلقوں ایل اے 34 اور ایل اے 40 پر تحریک انصاف ،پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) پی ایس پی ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں اور آزاد امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل تھے سندھ خصوصاًکراچی میں ایل اے 40 کے ووٹرز اچھی خاصی تعداد میں ہیں ایل اے 40 ویلی 1 کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے مطابق ایل اے 40 ویلی 1 نشست پر پیپلز پارٹی کے عامر عبدالغفار لون 2165 لے کر کامیاب ہوگئے ہیں۔
تحریک انصاف کے سلیم بٹ 875 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ہیں ،مسلم لیگ ن کے طاہر علی وانی 442 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے ہیں جبکہ اسی نشست پر پی ایس پی کے شبیر احمد خان نے 16 ووٹ حاصل کیے ،ایم کیو ایم کے عبدالرحمن گھاسی کو 5 ووٹ ملے ،آزاد امیدوار غلام محمد نے 3 اور محمد بشیر خان نے 1 ووٹ حاصل کیا،مجموعی طور پر ایل اے 40 ویلی میں 3548 ووٹ کاسٹ کیے گئے ،الیکشن سے قبل بھی یہی تاثر تھا کہ یہ نشست پی پی پی جیت جائے گی اس نشست کی جیت میں پی پی پی کراچی کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی کی محنت شامل تھی ووٹرز کی بڑی تعداد کا تعلق ان کے حلقے سے بھی تھا نتیجے کے اعلان کے بعد پاک سرزمین پارٹی نے صوبائی الیکشن کمیشن کو کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف خط لکھ دیا۔
پارٹی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر ارشد وہرا نے انتخابات میں دھاندلی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بنائے ہوئے اصولوں کی دھجیاں اڑا ئی گئیں۔ قانون کے خلاف امیدوار اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے ووٹرز کو اپنی گاڑیوں میں پولنگ اسٹیشن لاتے رہے جبکہ انتخابات سے قبل پولنگ عملے کو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنان کے ہمراہ بھی دیکھا گیا جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی غنڈہ گردی کی وجہ سے انتخابات آزاد، شفاف اور بلا خوف و خطر نہیں ہو سکے۔ اس لیے ہم الیکشن کمیشن سے دونوں جماعتوں کے نمائندوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
2011 تک کے ہونے والے الیکشن میں یہ نشست ایم کیو ایم جیتتی رہی ہے تاہم اس بار انہیں صرف بانی ووٹ ہی ملے ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کوروناوائرس سے متعلق صوبائی ٹاسک فورس اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ریسٹورنٹس اور شادی ہالز میں انڈور ، آؤٹ ڈور ڈائننگ بند رکھنے ، تمام مزارات ، تفریحی مقامات اور تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے سوائے اس کے کہ جہاں امتحانات جاری ہیں اور بازاروں / دکانوں کے کاروبار کے اوقات پیر سے صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک کردیئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ فارمیسی اور بیکری کی دکانیں معمول کے مطابق کام کریں گی مگر دو دن جمعہ اور اتوار کو کاروبار بند رہیں گے اور سرکاری اور نجی دفاتر 50 فیصد عملہ کی حاضری کے ساتھ کام کریں گے سوائے ضروری خدمات کے محکموں / اداروں کے۔سکریٹری صحت ڈاکٹر کاظم جتوئی نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ میں مجموعی طور پر کورونا کی تشخیصی شرح 10.3فیصد ریکارڈ کی گئی ہے لیکن کراچی میں یہ 22جولائی 2021 کو 21.54 فیصد ہوگئی ہے۔
جبکہ کراچی کے متعدد علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈائون بھی لگا دیا گیا حکومت سندھ نے کورونا ویکسین نہ لگانے والوں کی موبائل سم بند کرنے پر بھی غور شروع کر دیا ہے اس فیصلے پر تاجروں نے سخت احتجاج کیا ہے کراچی تاجر الائنس کے سرپرست اعلیٰ خواجہ جمال سیٹھی کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ہفتے میں دو دن کاروبار بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو بقیہ پانچ دن چوبیس گھنٹے کاروبار کھولنے سے مشروط کردیا اور کہا کہ اگرحکومت کورونا پرمکمل قابو پانا چاہتی ہے تو کاروبار چوبیس گھنٹے کھولنے کی اجازت دے اجلاس میں کہا گیا کہ ایک دن مارکیٹ بند ہونے سے یومیہ چار ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے یہ صرف تاجروں کا نہیں معیشت کا نقصان ہے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کراچی میں کاروبار بند کروانے پر زور دینے کے بجائے مختلف اسپتالوں میں قائم کورونا وارڈ کی استدعا میں اضافہ کرے۔ کورونا کی تشویشناک صورتحال کے نتیجے میں مجموعی کیسز 10لاکھ سے بڑھ گئے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کورونا کے سبب طلبہ کی تعلیم کے نقصان کے ضمن میں چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ ماہر تعلیم ڈاکٹر سعید الدین کا کہناہےکہ تعلیم نصاب نقصان کا مداوا نہ کرسکے۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ہم نے کوشش کی ہے کہ طلبہ کا تعلیمی نقصان کم سے کم ہو آن لائن کلاسز کا بھی انعقاد کرایا تاہم سو فیصد طلبہ کی انٹرنیٹ کی سہولت تک عدم رسائی اور آن لائن کلاسز لینے والے اساتذہ کی بڑی تعداد غیرتربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ محدود پرچوں کا امتحان لینے کے سبب طلبہ بہت سے مضامین کی بنیادی معلومات سے محروم رہ گئے ہیں انہوں نے کہا کہ ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ بچوں کی اسکول جانے ،پڑھنے ،صبح سویرے اٹھنے کلاس میں جانے کی عادت اور ان کے رویوں پر بھی اثر پڑا ہے اس نقصان کے لیے ہمیں جلد اور دیرپا دونوں پالیسیاں بنانا ہونگی ڈاکٹر سعید الدین کے مطابق طلبہ کا 2021 میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ہم نے امتحانات دیر سے ضرور کرائے اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں اس نقصان کی تلافی کیسے کی جاتی ہے۔