آزاد کشمیر کے گیارویں اور دسویں پارلیمانی عام انتخابات مکمل ہوئے پاکستان کی حکمران جماعت نے حکومت سازی کیلئے واضح اکثریت حاصل کرلی پاکستان پیپلز پارٹی دوسری اور حکمران جماعت ن لیگ اپنے اقتدار کا دفاع کرنے میں ناکام رہی 45 کے ایوان میں 32 سئنر ممبران اسمبلی میں پہنچے میں کامیاب ہو گئے جبکہ 13نئے ممبران پہلی مرتبہ اسمبلی ممبر منتخب ہوئے چار سابق وزرائے اعظم دو اسپیکر اسمبلی بھی کامیاب ہوئے پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی اکثریت اسمبلی باہر ہوگئے دلچسپ اور کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے سابق تین وزرائے اعظم سخت مقابلے کے بعد اپنی نشستوں کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سردار عتیق احمد خان راجہ فاروق حیدر خان ہیں اسپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر بھی اپنی نشست جتنے میں کامیاب رہے۔
ہارنے والوں میں سینئر پارلیمینٹرین میں ن لیگ کےچوہدری طارق فاروق ڈاکٹر نجیب نقی راجہ نصیر خان شوکت شاہ بیرسٹر افتخار گیلانی مسلم کانفرنس کے سردار نعیم خان ملک نواز اور تین ارب پتی مختیار عباسی مشتاق منہاس چوہدری سعید امیدوار اسمبلی میں نہ پہنچ سکے سب سے بڑا اپ سیٹ کریلوی خاندان میں ہوا اس خاندان میں 1936سےمتحدہ کشمیر اسمبلی میں بھی حکمرانی کی اس انتخاب میں ن لیگ چھوڑ کر مسلم کانفرنس میں واپس ہونے والے چچا سردار نعیم بھتیجا فاروق سکندر اسمبلی سے آوٹ ہوگئے سابق وزرائے اعظم بیرسٹر سلطان محمود اور راجہ فاروق حیدر خان 1985 کی اسمبلی میں بھی ممبر اسمبلی تھے اور 2021میں بھی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
جبکہ دوسری نسل میں اقتدار برقرار رکھنے والوں میں سے راجہ فاروق حیدر سردار عتیق احمد خان قاسم مجید ،عامرالطاف،سردار فہیم ربانی ،احسن ابراھیم ،ماجد خان ،عامر غفار لون،دیوان چغتائی میاں عبدالوحید شامل ہیں 13 ممبران اسمبلی پہلی مرتبہ منتخب ہوئے ان میں 7ممبران مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں اور 6آزاد کشمیر سے منتخب ہوئے ریاست کی 91سالہ جماعت مسلم کانفرنس کو شدید دھجکا لگا صرف ایک نشست حاصل کر سکی حالانکہ مسلم کانفرنس کا دعویٰ تھا کہ وہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے آزاد کشمیر میں سب سے زیادہ ممبر اسمبلی منتخب ہونے والی محترمہ نورین عارف اس مرتبہ اسمبلی میں نہ پہنچ سکیں آزاد کشمیر کی پہلی خاتون ممبر اسمبلی تھیں جو برائے راست انتخابات میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئی تھیں30سال تک آزاد کشمیر اسمبلی میں عوام کی خدمت کی انکے والد راجہ عبدالمجید خان 1970کی اسمبلی میں ممبر اسمبلی تھیں اس وقت کینسر کے مرض کا ہمت سے مقابلہ کررہی ہیں۔
آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک تاریخ رقم کی ہے کہ عورت ہوتے ہوئے ایک بڑے حلقے سے ممبر اسمبلی منتخب ہوتے تھیں اب اگلا انتہائی مشکل مرحلہ حکومت سازی کا شروع ہونے والا ہے وزارت اعظمیٰ کیلئے بیرسٹر سلطان محمود سردار تنویر الیاس انوارالحق خواجہ فاروق احمد ہونگے یہ قرعہ کس کا نکلتا ہے آئندہ ہفتہ اہمیت کا حامل ہوگا تحریک انصاف کا پاکستان میں وزرائے اعلیٰ بنانے کاجو تجربہ ہے اس کے مطابق خواجہ فاروق احمد اور سردار تنویر الیاس موسٹ فیورٹ ہونگے اگر سنیارٹی دیکھی گی تو پھر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا قرعہ نکل سکتا ہے اگر تحریک انصاف کا پنجاب کے پی کے اور گلگت بلتستان کا ریکارڈ دیکھا جائے تو بیرسٹر سلطان محمود کی گنجائش نہیں بنتی اب دیکھیں کہ وزارت اعظمیٰ کاتاج کس کے سر سجتا ہے لیکن تحریک انصاف کیلئے ابھی بہت بڑے امتحان ہیں دوران الیکشن کمپین جو وعدے کیے کیا وہ پورے ہونگے یا پاکستان کی طرح حالات ہوںگے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی الیکشن مہم اگر دیکھی جائے سب سے بڑی مہم تھی لوگ بہت بڑی تعداد میں مریم نواز کے جلسوں میں شریک ہوئی۔
مریم نواز نے آزاد کشمیر میں الیکشن کا ماحول بنایا دوسری نمبر پر پیپلز پارٹی کی مہم تھی تحریک انصاف نے کوئی بڑا پاور شو نہیں کیا لیکن تحریک انصاف کو اسلام آباد کا اقتدار فائدہ دے گیا ن لیگ کے ہارنے کا اہم سبب وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں تعینات وزیر اعظم آزاد کشمیر کا صوابدیدی عملہ تھا ایک وہ عملہ وزیر اعظم کی برادری سے تھا لیکن وہ راجہ فاروق حیدر خان کا مخلص نہیں بلکہ اپنا بنک بیلنس بڑھانے کے چکر میں رہتا تھا راجہ فاروق حیدر خان کے خاندان پر کبھی مالی کرپشن کا الزام نہیں لگا ان کے والد راجہ محمد حیدر خان 1952میں آزاد کشمیر کے پہلے وزیر دفاع تھے والدہ پہلی خاتون ممبر اسمبلی چچا ممبر اسمبلی رہے لیکن وزیر اعظم کا جو صوابدیدی عملہ تھا اس نے وزیر اعظم اور عوام کے درمیان فاصلہ رکھا جس کا نقصان وزیر اعظم کو ہوا کہ وہ دوسری نشست پر ایسے امیدوار سے شکست کھاگے جس کے والد اور خود الیکشن میں راجہ فاروق حیدر کی مدد کے بغیر کبھی الیکشن نہیں جیتے دوسرا ن لیگ کے اکثر وزرا کے اندر تکبر حدکو چھوتا تھا لوگوں کے کام بھی بہت کیے لیکن کام کرنے کا انداز غلط تھا وہ ورکرز کے کام اتنا تنگ کرکے کرتے تھے کہ کام ہونے کے باوجود لوگ مطمئن نہیں ہوتے تھے اب ان سب کیلئے مقام عبرت ہوگا اپنی ہار سے لازمی سبق سیکھیں گے اور اپنی اصلاح احوال کرینگے کہ جمہوریت میں عوام اصل طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔ پولنگ کے موقع پر زبردست گہما گہمی دیکھی گئی اور لوگ صبح سے ہی جوق در جوق پولنگ سٹیشنوں کا رخ کیا۔