موسم صاف ہونے کی صورت میں وزیراعظم پاکستان عمران خان 05اگست بروز جمعرات آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ 05اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر دفعہ 370اور 35-Aکا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تھا۔ اس تناظر میں دو سال گزرنے پر وزیراعظم عمران خان کا آزاد کشمیر کی دھرتی پر متوقع خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔آزاد کشمیر میں عام انتخابات کے بعد ”انتقال اقتدار“ کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی مجموعی 53نشستوں میں سے 32نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے PTIنے حکومت تشکیل دی ہے۔
آزاد کشمیر میں نومنتخب وزیراعظم سردار محمد عبدالقیوم خان نیازی کی سربراہی قائم ہونیوالی تحریک انصاف کی حکومت سے آزاد کشمیر کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ آزاد کشمیر میں گزشتہ 30سال سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ ہر آنیوالی حکومت نے پہلے 6ماہ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان تو کیا لیکن عملدرآمد نہ ہو سکا۔ انتخابی مہم کے دوران میرپور میں ائیرپورٹ کے قیام۔ آزاد کشمیر میں سوئی گیس کی فراہمی۔ رٹھوعہ ہریام بریج کی تکمیل۔ متاثرین منگلا ڈیم ریزنگ پراجیکٹ کے ذیلی کنبہ جات کا مسئلہ۔ متاثرین زلزلہ 24ستمبر 2019ء کے معاوضہ جات کی ادائیگی۔ متاثرین ایل او سی کے مسائل کے حل کی یقین دہانی سمیت، الیکشن کمیشن، عدلیہ۔ احتساب بیورو۔ٹیکس کولیکشن سسٹم۔ تباہ حال انڈسٹری کی بحالی اور جملہ سرکاری اداروں میں عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق اصطلاحات، عدالت العالیہ آزاد کشمیر میں میرٹ پر 8ججز کی تعیناتیاں۔
آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی اور بالخصوص جبکہ وزارت قانون پاکستان کی جانب سے جامع آئینی ترامیم کا مسودہ وزیراعظم پاکستان کو پیش کر دیا گیا ہے۔ جسمیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔ جسے آزاد کشمیر کا ایک مکتبہ فکر”آئین پاکستان“ کے آرٹیکل 257اور سلامتی کونسل کی قرادادوں سے انحراف سمجھتا ہے۔ ان آئینی ترامیم پر آزاد کشمیر سے شدید عوامی رد عمل جیسے چیلنجز کا تحریک انصاف کی حکومت کو سامنا ہوگا۔
اگر نو منتخب حکومت 80فیصد بھی اس میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس خطے اور عوام کی بڑی خدمت ہوگی۔ اس کے علاوہ دوران انتخابات آزاد کشمیر میں پیدا ہونیوالی ذاتی دشمنیاں اور تلخیاں ختم کرنا بھی حکومت آزاد کشمیر کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ 25جولائی 2021ء کے عام انتخابات، کچھ تلخ یادیں بھی چھوڑ کر گئے ہیں۔ نیلم لیسوا کے مقام پر اپنے فرائض کے دوران گاڑی کھائی میں گرنے سے مسلح افواج پاکستان کے 4جوان شہید ہوئے۔جس سے آزاد کشمیر کی فضا سوگوار ہے۔ شاردہ (نیلم)میں ایک شہری اور پرائی ضلع کوٹلی میں 2نوجوانوں کا قتل انتہائی قابل افسوس ہے۔ چڑھوئی پولیس نے اس قتل کیس میں 7نامزد ملزمان میں سے 4کو گرفتار کر لیا ہے۔
حلقہ ایل اے 12چڑھوئی سے PTIکے امیدوار اسمبلی چوہدری شوکت فرید ایڈووکیٹ اور PMLN کے امیدوار اسمبلی راجہ محمد ریاست خان جبکہ حلقہ LA-31کھاوڑہ سے MCکے امیدوار اسمبلی راجہ ثاقب مجید نے چیف الیکشن کمشنر کو علیحدہ، علیحدہ دی گئی درخواستوں میں ان حلقہ جات میں ہونیوالے انتخابات میں ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں پر متذکرہ حلقہ جات کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبار انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جس پر آزاد جموں و کشمیر الیکشن کمیشن نے بادی النظر میں الزامات کی معقولیت کے پیش نظر آزاد جموں و کشمیر الیکشنز ایکٹ 2020 کی دفعہ 9کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے متعلقہ حلقہ جات میں پیش آنیوالے واقعات کی چھان بین کیلئے، سیکرٹری الیکشن کمیشن محمد غضنفر خان کی جانب سے رجسٹرار عدالت العالیہ کو انکوائری کیلئے 2جوڈیشل آفیسران مقرر کیئے جانے کی نسبت چیف جسٹس عدالت العالیہ سے منظوری کی استدعا کی گئی ہے۔
آزاد کشمیر کی عوام توقع کرتے ہیں کہ اس غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری سے اصل حقائق سامنے آئیں گے اور متاثرین کو ریلیف ملنے سے دائمی امن کے قیام میں مدد ملے گی۔ حلقہ ایل اے 16وسطی باغ سے PPPکے امیدوار اسمبلی سردار قمر الزمان اور حلقہ ایل اے 35جموں 2سے PMLNکے امیدوار اسمبلی چوہدری اسماعیل گجر نے دوبار ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ حلقہ ایل اے 9نکیال سمیت ابھی مزید حلقوں سے بھی ریٹرنگ آفیسرز اور الیکشن کمیشن کو شکایات موصول ہونے کا غالب امکان ہے۔سابق اپوزیشن لیڈر و PPPکے دو انتخابی حلقوں سے واحد نو منتخب ممبر اسمبلی چوہدری محمد یاسین کا کہنا ہے کہ سیاسی جنگ سیاسی میدانو ں میں لڑی جانی چاہیے نہ کہ عدالتوں اور تھانوں میں لڑی جائیں۔
دنیا جانتی ہے کہ محالفین جان چکے تھے کہ ہم دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور ہماری کامیابی کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ سازش رچائی گئی۔ حقائق سامنے لانے کیلئے غیر جانبدرانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں جو لوگ فریق بن رہے ہیں وہ لاشوں پر سیاست کرنے سے باز رہیں۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آنے پر صورتحال واضح ہو سکے گی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے 25جولائی کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے آزاد کشمیر، پاکستان بھر اور بیرون ملک بھرپور احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جو کہ مرحلہ وار حلقہ جات پاکستان اور تارکین وطن کشمیریوں تک پھیلائی جائے گی۔ گو کہ احتجاج کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر جیتنے والا انتخابات کو شفاف قرار دیتا ہے اور ہارنے والا ہمیشہ دھاندلی کا رونا روتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر صورت صاف و شفاف انتخابات کروائے جائیں اور ہارنے والے جیتنے والوں کو مبارکباد جبکہ نئی بننے والی حکومت سب سے یکساں سلوک اور ترقی کے مواقع فراہم کرے۔