ملک کی سیا سی بساط پر وزیر اعظم عمران خان نے بتدریج اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ وہ کیر یئر سیا ستدان نہیں ہیں کھیل اور فلاح عامہ کے شعبہ سے سیاست میں آئے۔سیاست میں عملی جدو جہد انہوں نے1996میں شروع کی اسی لئے ان کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ سیا ست کے رموز کے ماہر نہیں ہیں اور کامیابی سے حکومت نہیں چلاپائیں گے۔ ان کی حکومت کے ابتداء سے ہی تاثر تھا کہ وہ پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کر پائیں گے اور اپوزیشن کے دھرنوں کے نتیجے میں یا تو مڈٹرم الیکشن ہوجائیں گے یا ان ہا ئوس تبدیلی کی راہ ہموار ہوجا ئے گی لیکن سچی بات تو یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں لگائے گئے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔
عمران خان نے 18اگست2018کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔بارہ دن بعد ان کی حکومت کے تین سال مکمل ہوجائیں گے۔ ملک کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جا ئے تو عمران خان سیا سی محاذ پر بھی ایک کا میاب کھلاڑی بلکہ کپتان ثابت ہوئے ہیں ۔ یا کم ازکم خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کہ ایک جا نب انہیں پے در پے سیاسی کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن منقسم ہو چکی ہے بلکہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ روایت رہی ہے کہ گلگت بلتستان اور آ زاد جموں وکشمیر میں وہی جماعت بر سر اقتدار آتی رہی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہو تاہم بہر حال دونوں جگہ پی ٹی آ ئی کی حکومت بننے سے عمران خان کو مجموعی طور پر سیا سی تقویت ملی ہے۔
پنجا ب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی حکومت میں اتحادی جماعت ہے۔ اب آ زاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی ہے۔ صرف سندھ ایک ایسا صوبہ باقی رہ گیا ہے جہاں پی ٹی آ ئی کی حکومت نہیں ہے۔سندھ کیلئے بھی وزیر اعظم عمران خان نے پر تول لئے ہیں ۔ ارباب غلام رحیم کو معاون خصوصی بر ائے سندھ افیئرز مقرر کرکے انہیں یہ ٹاسک د یا گیا ہے کہ وہ اندرون سندھ سے سیا سی شخصیات کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کیلئے رابطے کریں ۔ یہ رابطے جاری ہیں۔ وزیر اعظم رواں ماہ سندھ کا دورہ کریں گے اور جلسوں سے خطاب کریں گے ۔ اس موقع پر کئی سیا سی شخصیات پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کریں گی۔عمران خان نے یہ عزم کرلیا ہے کہ وہ سند ھ کا قلعہ بھی فتح کریں گے۔
عمران خان کا ہدف اب 2023کا الیکشن ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ 2023میں بھی الیکشن جیت کر وزیر اعظم بنیں ۔ ملک کی سیا سی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم مسلسل دوسری ٹرم میں وزیر اعظم نہیں بنا۔وقفہ کے بعد دو بارہ اور سہ بارہ وزارت عظمیٰ ضرور ملی ہے۔ عمران خان جب وزیر اعظم بنے تو انہیں342کے ایوان سےصرف176ووٹ ملے تھے۔ان کی حکومت اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم ‘ مسلم لیگ ق‘ جی ڈی اے اور بی این پی کی بیساکھیوں پر بنی۔ سردار اختر مینگل ناراض ہوکر علیحدگی اختیار کرچکے ہیں لیکن حکومت پھر بھی برقرار ہے ۔ مونس الہیٰ کو وزارت ملنے کے بعد ق لیگ کی ناراضگی بھی ختم ہوچکی ہے۔ایم کیو ایم کوبھی ایک اوروزارت ملنے کی امید ہے۔
ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ فروغ نسیم کو وزارت ایم کیو ایم کے کوٹہ سے نہیں دی گئی بلکہ وزیر اعظم نے اپنی صوابدید پر دی ہے لھذا ان کا حق ہے کہ ایک اور وزارت انہیں دی جا ئے۔ ارباب غلام رحیم کی شمولیت کے بعد ووفاقی کا بینہ کا حجم اس وقت53ہے ۔وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی تعداد بڑھ کر 17 ہوگئی ہے۔وفاقی کابینہ میں غیر منتخب شخصیات کی تعداد بڑھ کر 18 ہوگئی ہے۔ وفاقی وزراء کی تعداد 28ہے جن میں سے ایک غیر منتخب وفاقی وزیر بھی شامل ہے۔ معاونین خصوصی میں 13 غیر منتخب شخصیات شامل ہیں۔
وزیراعظم کے تمام 4 مشیر بھی غیر منتخب ہیں۔ وفاقی کابینہ میں وزرائے مملکت کی تعداد 4 ہے۔وزیر اعظم کے ایک مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے استعفیٰ دیدیا ہے جویکم ستمبر سے موثر ہوگا۔ سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کا میابی نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے مورال کو بلند کیا ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیا جا تاہے۔ پنجاب میں اب تک جتنے ضمنی الیکشن ہوئے ہیں ان میں مسلم لیگ ن کو کا میابی مل ہے اور یہ پی ٹی آئی کی تین سال میں ضمنی الیکشن میں پہلی فتح ہے ۔ اس فتح نے مسلم لیگ ن کے سیا سی مستقبل کو دائو پر لگادیا ہے۔ ن لیگ کے ورکرز کا مورال گر گیا ہے۔ لیگی ورکرز اب اپنی قیادت کا احتساب چاہتا ہے جس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا ۔ مسلم لیگ ن 2018سے اب تک اپنے بیانیہ کے اعتبار سے فکری ابہام اور تضاد کا شکا ر ہے ۔
ایک بیانیہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا ہے۔ یہ بیانیہ ووٹ کو عزت دینے کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کا بیانیہ ہے۔یہ جار حانہ بیانیہ ہے جس نے مقبولیت بھی حاصل کی لیکن ذاتی کردار کشی یا نام لے کر حملوں نے اس بیانیہ کے فوائد بھی ضا ئع کردیے ۔ سات سمندر پار بیٹھ کر نظر یاتی سیا ست کا کردار ادا کرنا عملیت پسندی نہیں ہے ۔یا تو نواز شریف ملک میں رہیں جیل کاٹیں اور بیانیہ کی عملی تصویر بنیں یا پھر شہباز شریف کےحقیقیت پسندانہ مفا ہمتی بیانیہ کو آگے بڑھنے دیں۔بظاہر شہباز شریف پارٹی کے صدر ہیں لیکن عملی گرفت نواز شریف اور مریم نواز کی ہے۔ مریم نواز نے بلاشبہ کا میاب جلسے کئے ۔
انہوں نے سٹریٹ پالیٹکس کا میابی سے کی مگر کامیابی سے کارڈ نہیں کھیل سکیں ۔ شہباز شریف بہت اچھے منتظم ہیں ۔کامیاب وزیر اعلیٰ رہے۔ کا میاب وزیر اعظم بن سکتے ہیں مگر عوامی مزاج نہیں رکھتے ۔ وہ انٹی اسٹیبلشمنٹ سیا ست پر یقین نہیں رکھتے۔ آ زاد کشمیر الیکشن میں شہباز شریف آئوٹ رہے۔ مریم نواز نے کا میاب جلسے کئے مگر سیٹیں پیپلز پارٹی نے زیادہ لیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ محض بڑے جلسے کا میابی کی ضمانت نہیں ہیں اور بھی کئی عوامل ہیں جو کامیابی میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے اب تک عملی سیا ست کی ہے۔ سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کو اپو زیشن لیڈر بنوا لیا۔ آ زاد کشمیر میں دوسری بڑی جماعت بن گئے۔
اب ان کا ہدف پنجاب ہے۔ ن لیگ کی قیادت کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پنجاب پر ان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف بیانیہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا ئے ۔ایک برطانوی محاورہ ہے کہ کمانڈ میں کوئی تقسیم نہیں ہوتی ۔ یہ طے کرناہوگا کہ پارٹی نواز شریف نے چلانی ہے شہباز شریف نے ۔ دونوں صورتوں میں پارٹی کی حکمت عملی بھی الگ ہوگی اور نتائج بھی الگ نکلیں گے۔ ن لیگ اب دو راہے پر کھڑی ہےاور فیصلہ کی گھڑی ہے۔ مٹھی سے ریت نکلنے لگی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ن لیگ کو جو سیا سی نقصان ہو رہا ہے وہ اس کی قیادت کی دوعملی اور فکری تضاد سے ہو رہا ہے۔جتنا جلدی لیگی قیادت یکسو ہوگی اتنا ہی جلدی نقصان پر قابو پایا جاسکے گا۔ شہباز شریف وضع دار ہیں ۔
بڑے بھائی کے سامنے بول نہیں سکتے مگر وہ بہر حال مو جودہ صورتحال سے دل گرفتہ ہیں ۔ لیگی ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت شہباز شریف کے بیانیہ کی حامی ہے۔ شہباز شریف الگ بھی دھڑا بنا نے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ووٹ بنک نواز شریف کا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پی ڈی ایم اب ان کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے نکلنے سے یہ بے ضرر اپوزیشن محاذ میں بدل چکا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے با وجود چینی اور گندم درآ مد کی جا رہی ہے۔ درآ مدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روپے پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ 153روپے سے ڈالراب160 اور161پر آ گیا ہے۔ اس سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔افرط زر بھی بڑھ ر ہا ہے۔
قومی اسمبلی نے تیسرا پا ر لیمانی سال مکمل کر لیا ہے لیکن مو جودہ حکومت نے صدارتی آرڈی ننس کی بھر مار کرکے اچھی روایت قائم نہیں کی۔ قانون سازی میں اپوزیشن کو شریک کیا جا ئے۔ انتخابی اصلاحات اور نیب کے قوانین میں اصلاحات اپو زیشن کی مشاورت سے کی جا ئیں ۔عمران خان اب اپوزیشن کیلئے مفاہمانہ رویہ اپنائیں ۔ اپوزیشن لیڈر سے ورکنگ رریلشن شپ بنائیں ۔ الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری ا پوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کی جا ئے اور یہ مشاورت دکھاوے کی بجا ئے بامعنی ہو ۔ ملک کو افغانستان کی وجہ سے جن غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اس میں جے یو آئی ف کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
مو لانا فضل الر حمنٰ کو آن بورڈ کیا جائے۔ قومی اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا وقت کا تقاضا ہے۔ الیکشن اب 2023میں ہی ہوں گے ۔ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اپو زیشن بھی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے ۔سڑکوں کی احتجاجی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ن لیگ کیلئے مشورہ یہ ہے کہ مریم نواز اور شہباز کا بیانیہ نہیں چلے گا ۔ شہباز شریف کو ڈرا ئیونگ سیٹ دیں اور مکمل اختیار بھی۔جو بچا ہے اسے سنبھال لیںورنہ پچھاوارہ جا ئے گا۔ سیاست کے میدان میں حکمت عملی غصے اور جذبات سے نہیں بلکہ حکمت اور دانائی سے بنائی جاتی ہے۔