ج۔م
پاکستان میں یوں تو روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جس سے دل دہل جاتا ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ ہم جانی حادثات کے بعد بھی ایسے واقعات سے سبق نہیں سیکھتے اور بار بار یہ پیش آتے ہیں جس سے آئے روز انسان جان جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
گوجرانوالہ جی ٹی روڈ ویگن حادثے میں سلنڈر پھٹنے سے خواتین بچوں سمیت 11 افراد زندہ جل گئے، جی ٹی روڈ کوٹ شاہاں کے قریب مسافر ویگن کے سلنڈر میں آگ لگی تو پیچھے سے آنے والے دودھ کے ٹینکر نے زور دار ٹکر مار دی جس سے سلنڈر دھماکے سے پھٹ گیا اور مسافرزندہ جل گئے۔
کتنی بے بسی ہو گی اس ویگن میں سوار افراد میں جو اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے انھوں نے پورا کرایہ دیا اور سکون سے بیٹھے ہوں گے لیکن ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد اپنے منافع میں اندھے ہو چکے ہیں اور قطعی طور پر سی این جی اور ایل پی جی کے استعمال میں سیفٹی اقدامات کو مدنظر ہی نہیں رکھتے۔ وہ اپنے لالچ کے لئے پرانی بسیں ویگن اور رکشے سڑکوں پر بھگائے پھرتے ہیں اول تو یہ ٹرانسپورٹ اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ اتنا سفر کر سکے ،دوسرا مختلف اداروں سے ہر سال سرٹیفیکشن لینا ہوتی ہے اس میں ناکام ہوتے ہیں اکثر ڈرائیور لائسنس تو لے لیتے ہیں لیکن وہ گاڑی کی اندرونی اور بیرونی حالت اور قواعد و ضوابط سے ناآشنار ہتے ہیں ان میں روڈ سینس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہماری سڑکوں پر حادثات بڑھ رہے ہیں۔
اوور سپیڈ کے ساتھ ان میں لگے ہوئے سی این جی، ایل پی کے سلنڈرز بم کی طرح ہیں جونہی ٹکراتے ہیں یہ بم پھٹ جاتے ہیں اور پھر اس میں سوار مسافروں کو نکالنا ممکن ہی نہیں ہوتا ۔اس حادثے میں بھی یہی ہوا ۔ سیفٹی اقدامات کو سو فی صد یقنی بنایا جائے اور انسانی جان کی قدر کی جائے لیکن یہاں سارا معاشرہ بے حس ہو چکا ہے افسران تنخواہیں لیتے ہیں لیکن اپنی قانونی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔
اس حادثے کے بعد اوگرہ اور دیگر اداروں کےساتھ سی این جی اور ایل پی جی ایسوسی ایشن کی ٹیموں نے جائے حادثہ کا معائنہ کیا اور الگ الگ رپورٹس تیار کی ہیں۔
اس بارے میں ایل پی جی ایسوسی ایشن کے چئیرمین عرفان کھوکھر کا کہنا ہے کہ اس وقت پبلک ٹرانسپورٹ میں ایل پی جی اور سی این جی سلنڈرز کے استعمال پر پابندی عائد ہے جس کا اطلاق ہائی کورٹ نے کیا تھا لیکن اس وقت ہزاروں گاڑیاں سڑک پر چل رہی ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ایل پی جی کا استعمال آٹو سیکٹر میں ہے ۔اسی طرح دنیا کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی ایل پی جی گیس سٹیشن لگائے گئے تھے لیکن یہاں پالیسی بن جاتی ہے لیکن سیفٹی پر کام نہیں ہوا ،سیفٹی پر کام کیا جانا چاہئے تو ایسے واقعات رک سکتے ہیں ،60 فی صد ایل پی جی آٹو سیکٹر میں ہی استعمال ہو رہی ہے ۔اگلے ماہ اوگرہ اس سیفٹی پر پورے ملک میں مہم چلانے جارہی ہے ،ہم ان کے ساتھ ملکر عوام کو شعور دیں گے ،عرفان کھوکھر کا کہنا ہے کہ کیونکہ پٹرول سے سی این جی اور ایل پی جی بہت سستی ہے۔
لہذا آٹو سیکٹر نے اس کا استعمال دوبارہ شروع کر دیا ہے تاکہ ان کی بچت زیادہ ہو لیکن لوگوں نے اپنے سلنڈرز اورگاڑیوں کی دیکھ بھال اس طرح نہیں کی ہوتی اور انکی فا ئونڈیشن کمزور ہوتی ہے زرا ساجھٹکا برداشت نہیں ہو پاتا ،میں کہوں گا کہ اس میں لوگوں کے ساتھ سرکاری محکمے بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہم چاہتے ہیں کہ اس حادثے سے سبق سیکھا جائے سخت ترین سیفٹی پالیسی بنائیں سڑکوں پر چیکنگ ہو، گاڑیاں بند کر کے انھیں سیفٹی کے مطابق کیا جائے تبھی حادثات رک سکیں گے۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے چئیرمین غیاث پراچہ کہتے ہیں کہ گوجرانوالہ میں ہونے والے حادثے میں انسانی جانوں ضیاع کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ حادثے کی وجہ LPG کا گاڑیوں میں استعمال ہے۔ LPG اس لئے خطرناک ہے کہ یہ سلنڈر سے لیک ہوکر گاڑی میں ہر طرف پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے آگ فورا ًچاروں طرف پھیل جاتی ہےاور ایک المناک حادثے کا باعث بنتی ہے،
انہوں نے کہا کہ سی این جی جب پھٹتی ہے تو یہ ایل پی جی کی طرح دھماکہ اور آگ نہیں لگاتی چونکہ یہ ہوا سے ہلکی ہے لیک ہونے کی صورت میں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
فیول کے طور پر گاڑیوں میں ایل پی جی کے استعمال پر اوگرہ کی جانب سے مکمل پابندی ہے۔ انتظامیہ، اعلی حکام اور حکومتی ادارے فوراً اس پابندی پر عمل کرائیں اور ایل پی جی کے ہر طرح کے ٹرانسپورٹ میں استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔
غیاث پراچہ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے یہاں شور مچ جاتا ہے اور انکوائریاں ہوتی ہیں لیکن چند روز بعد گرد بیٹھ جاتی ہے اور سب بھول جاتے ہیں نہ اسکا کوئی حل نکلتا ہے اور نہ کوئی حکمت عملی سامنے آتی ہے یہی وجہ ہے کہ حادثات بڑھتے ہی جارہے ہیں خدارا ہم سب اپنا اپنا کام پورا کریں یہ نیکی ہے۔