• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پیپلز پارٹی: جنوبی پنجاب کے بڑے سیاسی خاندانوں سے رابطے تیز

پیپلزپارٹی میں شمولیت کی جو لہربلوچستان سے اٹھی ہے ،مصدقہ ذرائع کے مطابق وہ خیبرپختونخواہ کے راستے پنجاب تک بھی پہنچے گی اور خصوصاً جنوبی پنجاب کے بعض معروف خاندانوں سے پیپلزپارٹی کے رابطے جاری ہیں اور پارٹی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بہت جلدمظفرگڑھ اور ڈی جی خان کے بعض بڑے سیاستدان پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں گے جبکہ بہاول پورڈویژن میں بھی پیپلزپارٹی بعض مؤثر سیاسی شخصیات سے رابطے کررہی ہے اور انہیں پارٹی میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،ادھر ملتان ڈویژن میں بھی سیاسی جوڑتوڑکا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور بہت جلد معروف سیاستدانوں کی پیپلزپارٹی کی طرف ’’ہجرت‘‘ متوقع ہے۔

سیاسی حلقے اس صورتحال کو سٹیبلشمنٹ کے مستقبل میں سیاسی منصوبوں کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ آئندہ سیاسی منظرنامے میں پیپلزپارٹی ایک بڑے فریق کے طور پر ابھرے گی،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آصف علی زرداری چندماہ پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ مرکز اور صوبہ پنجاب میں حکومت پیپلزپارٹی بنائے گیاور اس سلسلہ میں جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز اہم کردار ادا کریں گے، الیکٹیبلز سے مراد اگروہی معروف سیاسی خاندان ہیں ،جو پشت درپشت اقتدار میں اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں ،توا س کے آثار اب نظر آرہے ہیں ،آصف علی زرداری کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہونے جارہی ہے کہ 2023ءکے انتخابات سے پہلے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائےگا۔

سیاسی حلقوں میں حیرت اس بات پر بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں فی الوقت ایسی مقبولیت نظر نہیں آتی کہ جو آنے والے انتخابات میں اس کے امیدواروں کی جیت کا باعث بنیں ،مگر اس کے باوجود اگر طاقت ور سیاسی لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہونے جارہے ہیں ،تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوسکتی ہے، پاکستان میں سیاست اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتی اور پچھلے کچھ عرصہ میں پیپلزپارٹی نے حکومت کے خلاف تحریک کو دبانے کے لئے جو غیراعلانیہ کردارادا کیا ہے ،اس کے صلہ میں اسے کچھ بھی مل سکتا ہے ،یادر ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کی پیٹھ میں پیپلزپارٹی نے آخر وقت پر چھرا گھونپ کر اسے ادھ موا کردیا تھا ،آج یہ عالم ہے کہ پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد وہ کہیں نظر نہیں آرہی۔

اگرچہ دعوے کئے گئے تھے کہ پی ڈی ایم کی تحریک پیپلزپارٹی کے بغیر بھی چلے گی ،مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی ۔اس وقت قومی سیاسی منظرنامے پر حکومت کو کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے ،مقتدرقوتوں نے جو چاہا ،پیپلزپارٹی نے وہی کردار ادا کیا ،لیکن سیاسی مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے بل بوتے پر مرکز اور پنجاب میں اپنی فتح کی امید تو لگائے بیٹھی ہے، مگر دوسری طرف تحریک انصاف سندھ میں نقب لگانے کی تیاری کررہی ہے اور یہ خبریں زیرگردش ہیں کہ سندھ حکومت کو ہٹا کر وہاں تحریک انصاف ،اتحادیوں سے مل کر حکومت قائم کرے گی۔

اگرچہ یہ آسان نہیں ہے ،مگراس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ فی الوقت مقتدر قوتوں کا کردار بڑا غیر واضح ہے ،اگروہ پیپلزپارٹی کی پشت پر ہاتھ رکھ چکی ہے ،تو پھر سندھ حکومت کے بارے میں کوئی قدم کیسے اٹھایا جاسکتا ہے ،کیا وزیراعظم عمران خان پنے طور پر کوئی سیاسی قدم اٹھانا چاہتے ہیں ،یا پھر یہ سب کچھ ایک بڑی سیاسی گیم کا حصہ ہے ،آنے والے دنوں میں اگر جنوبی پنجاب سے بڑی سیاسی شخصیات پیپلزپارٹی میں شامل ہوجاتی ہیں تو اس کے گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔

اس وقت صورتحال یہ کہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن سیاسی طور پر غیرفعال نظرآتی ہیں ، تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی عوامی مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں ،جبکہ مسلم لیگ ن دو بیانیوں میں پھنس کر اپنی اہمیت کھو چکی ہے ،اس خلاء سے پیپلزپارٹی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ، انتہائی باوثوق ذرائع نے مظفرگڑھ ، ڈیرہ غازی خان ، بہاول پور ، بہاولنگراور وہاڑی کے چند بڑے سیاسی خاندانوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کی پیش گوئی کی ہے ،ظاہر ہے کہ جب ایسی ہوا چلتی ہے ،تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ،اقتدار میں رہنے والے وقت سے پہلے اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔

اس وقت سیاسی منظر نامے میں اس قدر ابہام ہے کہ کوئی بھی دوٹوک رائے نہیں دی جاسکتی ،البتہ اس بارے میں ضرور کچھ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں بڑے چیلنجز کا سامنا رہے گا ، کیونکہ اس کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ جس پر وہ سرخرو ہوکر عوام کے سامنے جاسکے ،معاشی حالات نے عوام کو زمین سے لگا رکھا ہے اور انہیں موجودہ حکومت سے کوئی امیدنظر نہیں آرہی۔

ادھر مسلم لیگ ن بھی نہ صرف سٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں نہیں ہے ،بلکہ اس کا داخلی انتشار بھی اسے غیر مقبول بنارہا ہے ،اس تناظر میں کیا سیاسی راستہ رہ جاتا ہے ،سوائے اس کے کہ پیپلزپارٹی کو آگے لایا جائے ،کیونکہ چوتھی سیاسی قوت ملک میں موجود ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے ہیوی ویٹ سیاسی شخصیات کو اپنے دامن میں لینے کے لئے دونوں بازو کشادہ کردیئے ہیں ، اگر مستقبل قریب میں جنوبی پنجاب ، خیبرپختونخواہ اور اپر پنجاب کے کچھ الیکٹبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوتے ہیں ،تویہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ ہوا دوسری سمت میں چل پڑی ہے۔ پچھلے ہفتہ رحیم یارخان کے علاقہ بھونگ میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا ،جس میں ہندوؤں کی بستی پر حملہ کرکے ایک مندرکو نقصان پہنچایا گیا ،ابھی تک لوگ حیران ہے کہ یہ واقعہ آخر کیوں پیش آیا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین