قومیں اپنے خوابوں کے تعاقب میں آگے بڑھتی ہیں اور اس وقت تک ان کا سفر جاری رہتاہے جب تک ان کی آنکھوں میں خواب زندہ ہوتے ہیں۔ وقت گزرتا رہتا ہےاور قدم بڑھتے رہتے ہیں۔ آج جب پاکستان نے اپنے قیام کے سفر میں 75واں قدم رکھا ہے تو ماضی کے 74سال کے اوراق بھی پھڑپھڑ ارہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب ماضی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہےتو اکثر اس کی آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور پھر نم آلود نگاہیں ذہن کے پردے پر برق رفتاری سے ابھرنے والی تصویریں بھی دھندلادیتی ہیں۔
ماضی کے پردے پر ان جوشیلے نوجوانوں کے عکس بھی نمایاں ہیں ، جو ہاتھوں میں جھنڈے لیے پرجوش آوازوں میں نعرے لگا رہے تھے، ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ ان نوجوانوں نے خوش اسلوبی سے اپنا فرض بھی نبھایا اور ذمہ داریاں بھی پوری کیں۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے وہ بہت پرامید تھے۔ اُن کے حوصلے بلند تھے۔ اُن کی آنکھوں میں خواب سجے تھے۔ محنت، لگن سے کام کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے لیکن نہ جانے کیا ہوا، نوجوان صحیح سمت پر چلتے چلتے غلط سمت پرچل پڑے، اپنی تہذیب و ثقافت کو ہی نہیں زندگی کی ہر اقدار کو پاؤں تلے روندتے ، بے راہ روی کا شکار ہوگئے۔
گرچہ آج کا پاکستان، نوجوان ہوتا نظر آرہا ہے۔ کسی بھی جائے ملازمت پر چلے جائیں، نوجوان چہرے نظر آئیں گے۔ تمام اہم سیاسی جماعتیں اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں، بعض کی قیادت میں نوجوان ہیںاور سب جماعتیں ’’نوجوان ووٹ‘‘ کو اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہیں لیکن نوجوان کیا چاہتے ہیں اور پاکستان بننے کے بعد کیا چاہتے تھے، یہ کسی نے نہیں سوچا۔ جب ہی تو راستہ بھٹک گئے۔ آج آنکھوں میں خواب سجائےجوان سوگئے۔ آئیے 74سالہ پاکستان میں نوجوانوں کو دیکھتے ہیں، ان کے ساتھ کیا ہوا۔
قیام پاکستان سے قبل غیرمنقسم ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کو معیاری، جدید تعلیم کے حصول کا مسئلہ درپیش تھا۔ مسلم علما اور اشرافیہ انگریزی زبان کے سیکھنے بولنے کے سخت خلاف تھی۔ جدید تعلیم کے بجائے فارسی ، اردو اور عربی زبانوں میں مذہبی تعلیم تاریخ شعرو ادب تک محدود تھی۔ ایسے میں ہندوئوں نے جو جدید تعلیم اور انگریزی زبان کی اہمیت کو سمجھتے تھے انہوں نے انگریزی سیکھ کر ملازمتیں حاصل کرلی تھیں۔
اس صورت کو دیکھتے ہوئے سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور انگریزی زبان سیکھنے کی طرف راغب کرنے کی جدوجہد شروع کی جس کے لیے رسالہ، اخبار جاری کیا اور نیشنل کالج کی بنیاد رکھی جو بعدازاں اپ گریڈ ہوکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گئی تب مسلم نوجوانوں کو جدید تعلیم انگریزی زبان میں حاصل کرنے، ہندوئوں سے اعلیٰ ملازمتوں کے میدان میں مقابلہ کرنے کی سکت پیدا ہوئی اور پھر بڑی بڑی شخصیات پیدا ہوئیں۔
ایک وقت تھا جب نوجوان بزرگوں کی عزت و احترام، چھوٹے بڑے کا خیال رکھتےتھے۔ اکثر نوجوان بزرگوں کے بیچ بیٹھتے تو سر پر ٹوپی ضرور ہوتی تھی۔ اونچی آواز میں گفتگو کرنا، بزرگوں یا محلے کے کسی بزرگ کے سامنے سگریٹ نوشی کرنا یا پان کھانا معیوب اور بے ادبی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ اخلاقی اقدار کا بھی اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ اگر کوئی نوجوان کچھ غلط کرتا پایا جاتا تو محلے کے بزرگوں کو بھی حق حاصل تھا کہ اس نوجوان کو ڈانٹ ڈپٹ کریں یا پھر اس کے والدین سے اس کی شکایت کریں۔ زیادہ تر نوجوان معاشرے کی عام اخلاقی قدروں کا خود بھی خیال رکھتے تھے۔ اب وقت بدل گیا۔ نہ احترام ہے نہ عزت۔
قیام پاکستان میں نوجوانوں کے کردار سے سب ہی واقف ہیں۔اس کے بعد نوجوانوں اور طلبہ کو جن حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑا اس کی انہیں توقع نہ تھی جبکہ قبل از تقسیم ہند تحریک پاکستان کے دوران نوجوانوں نے اپنے اپنے ذہنوں میں بہت خواب سجائے تھے۔ انہیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ پاکستان میں سب مسلمان ہونگے، اخوت، بھائی چارہ ہوگا۔ نوجوانوں کو اپنے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ وغیرہ وغیرہ ۔جو نوجوان قیام پاکستان سے قبل ان علاقوں میں رہائش پذیر تھے جن علاقوں میں پاکستان قائم ہوا ان کی سوچ قدرے مختلف تھی۔
وہ ایک طرح سے مطمئن تھے کہ ہندو طلبہ سے مسابقت ختم ہو جائے گی،۔ اب ہم ہی ہم ہوںگے۔ جو نوجوان اور طلبہ ہجرت کرکے پاکستان آئے وہ بھی مطمئن تھے کہ ہم ایسی سرزمین کا حصہ بن رہے ہیں جہاں ہمیں اپنا مستقبل سنوارنے اور اپنے نئے وطن کی تعمیر میں حصہ لینے کا موقع میسر آئے گا، مگر ہوا اس کے برعکس، پاکستان کے وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد قائداعظم محمد علی جناح رحلت فرما گئے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مارکر شہید کردیا گیا۔ پھر سیاست میوزیکل چیئر کا منظر پیش کرنے لگی۔ ایسے میں نوجوانوں کے بارے میں کون سوچتا سب کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ اس صورت حال نے ملک کے تمام نوجوانوں کو بہت دل برداشتہ کیا۔ مایوسی کے اندھیروں میں کہیں روشتی کی رمق بھی نظر نہ آتی تھی۔
حکمرانوں نے طرح طرح کے بہانہ بناکر حقیقی مسائل سے روگردانی کو اپنا وطیرہ بنایا ہوا تھا۔ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے اور ان کو سننے کا وقت کسی کے پاس نہ تھا۔ ان نامساعد حالات میں بھی بیش تر نوجوانوں نے اپنی محنت اور بصیرت سے اپنا مستقبل سنوارا، وظائف حاصل کیے، بعض نے راتوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنی پڑھائی مکمل کی۔ کتنے نوجوانوں نے محنت مزدوری کرکے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اکثر گھروں میں بجلی نہ تھی، لالٹین اور چراغ جلائے جاتے تھے۔ ان حالات میں بہت سے نوجوان اسٹریٹ لائٹ کے نیچے بیٹھ کرمطالعہ کرتے تھے، ہوم ورک پورا کرتے تھے۔
پاکستان دنیا کےاُن بارہ پندرہ ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں خوش قسمتی سے نوجوانوں کی آبادی باسٹھ تا چونسٹھ فیصد ہے جو بارہ سال سے چوبیس سال کی عمر کے ہیں یہ حقیقت ہے کہ نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں مگر انہیں یہاں کہیں سے کوئی مدد حاصل نہیں ہے نہ کوئی تعاون میسر ہے۔ دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کے نوجوانوں کے مسائل قدرے الگ الگ ہیں۔ دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے بعض علاقوں میں بجلی کی سہولت میسر نہیں ہے، اگر بجلی ہے تو انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے، اسکول یا کالج گھروں سے ہی نہیں علاقوں سے بھی دور دور ہیں۔
نوجوانوں کو منشیات کی طرف مائل کرنے، آتشیں ہتھیار اٹھانے اور ناجائز ذرائع سے پیسہ حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے میں بہت سے بااثر اور طاقتور عناصر کا ہاتھ ہے، کچھ بااثر طاقتور حلقوں نے اپنی بدعنوانیوں، غیرقانونی سرگرمیوں اور لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے، عوام کی توجہ اپنی طرف سے ہٹانے کے لیے نوجوانوں کو اس پرتشدد راستے کی طرف دھکیلا ہے٭… نسلِ نو اپنی تہذیب و ثقافت کی ہی نہیں زندگی کی ہر اقدار کو پائوں تلے روندتی بے راہ روی کا شکار ہوگئی۔
اساتذہ نہیں ہیں، پھر ان کی تربیت نہیں ہے، وہ اپ گریڈ نہیں ہیں، پرانا سبق، پرانا نصاب، رٹی رٹائی چیزیں بار باررٹنا پڑتی ہیں ۔،جبکہ شہری علاقوں کے طلبہ اور نوجوانوں کو بجلی، انٹرنیٹ کی سہولتیں میسر ہیں، شہر میں ٹرانسپورٹ ہے، اسکول کالج آنے جانے میں ایک حد تک آسانی ہے، مگر سب اچھا نہیں ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں کے نوجوانوں کے بیش تر مسائل یکساںہیں، مثلاً بیروزگاری، مایوسی، تشدد، گن کلچر، ڈرگ کلچر، اخلاقی گراوٹ، غربت، پسماندگی اور بے راہ روی دونوں جگہ ہیں۔
سچ یہ ہے کہ گزشتہ74 برس میں معاشرے اور نوجوانوں کی اخلاقی اقدار بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کے دور میں بیش تر نوجوان بزرگوں کی عزت اور احترام کا پورا خیال رکھتے تھے۔ ادب آداب کا، چھوٹے بڑے کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اکثر نوجوان بزرگوں کے بیچ بیٹھتے تو سر پر ٹوپی ضرور ہوتی تھی۔ اونچی آواز میں گفتگو کرنا، بزرگوں یا محلے کے کسی بزرگ کے سامنے سگریٹ نوشی کرنا یا پان کھانا معیوب اور بے ادبی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ اخلاقی اقدار کا ماضی قریب میں بھی اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ اگر کوئی نوجوان کچھ غلط کرتا پایا جاتا تو محلے کے بزرگوں کو بھی حق حاصل تھا کہ اس نوجوان کو ڈانٹ ڈپٹ کریں یا پھر اس کے والدین سے اس کی شکایت کریں۔ زیادہ تر نوجوان معاشرے کی عام اخلاقی قدروں کا خود بھی خیال رکھتے تھے۔ گفتگو کا انداز شائستہ اور باادب ہوتا تھا۔
عجیب بات یہ ہوئی کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں جو حکومت قائم ہوئی وہ لیڈرشپ کے استحکام، خارجہ پالیسی اور کچھ لبرل ازم کے کھوکھلے نعرے دے کر مسائل کے حل کے لیے ٹال مٹول کرتی رہی۔ ایسے میں اکثر نوجوانوں اور مزدوروں کی تنظیمیں جذباتی اور پرتشدد سیاست کی طرف مائل ہوگئیں۔ آخرکار اس حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ملک میں مارشل لا کانفاذ ہوگیا۔ نوجوانوں میں مزید مایوسی پھیل گئی کیونکہ گزشتہ حکومت نے ان کی بہتری کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا، حالانکہ عوامی سیاست کے نعرے بہت لگائے، پھر مارشل لاکے بعد ان سے رہی سہی امیدیں ختم ہوگئیں۔
نوجوانوں کا خیال تھا کہ ان کے لیے بھی حکومت کوئی جامع منصوبہ بندی کرے گی۔ اس حکومت نے زیادہ تر اسلامی نظام، اسلامی انصاف اور اسلامی فلاحی ریاست کے نعرے دے کر گیارہ برس گزار دیئے، البتہ بیش تر نوجوانوں نے اپنا رنگ ڈھنگ بدل لیا۔ مگر ان میں پائی جانے والی مایوسی اور احساس محرومی کم نہ ہوئی ۔مگر اس دور میں بڑا غضب یہ ہوا کہ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے لاکھوں افغانی پاکستان میں پناہ حاصل کرنے کے لیے آگئے اور یہ اپنے ساتھ کلاشنکوف، ہیروئن، دیگر ڈرگ بھی ساتھ لائے اور یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اس طرح کی مضر اشیاء اور منفی رویئے نوجوانوں کو متاثر کرتے اور ان میں جلد عام ہوجاتے ہیں۔ بعدازاں پاکستانی معاشرہ کا چلن خاصا تبدیل ہوگیا جو فیبرک اچھا تھا برا چل رہا تھا وہ شدید متاثر ہوگیا۔ تشدد، گن کلچر، ڈرگ کلچر اور بے راہ روی عام ہوگئی۔ آئے دن بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات عام ہونے لگے ایسے میں نوجوانوں کی نفسیاتی حالت کا متاثر ہونا اور ان میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہونا فطری طور پر لازمی تھا اور وہی ہوا۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس صورت حال میں زیادہ بے راہ روی کا شکار ہوگئی۔
80 کی دہائی میں سندھ میں نوجوانوں میں سندھ حکومت کی طرف سے سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کو ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے میں نظرانداز کرنے پر غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔ اس وجہ سے ایک عرصے تک سندھ میں بالخصوص سندھ کے شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص وغیرہ میں نوجوانوں کی بڑی تعداد پرتشدد مظاہروں اور گن کلچر میں ملوث ہوگئی۔ یہ کوئی سیاسی تحریک نہیں تھی۔ لسانی اور نسلی علاقائی تعصبات سر اٹھانے لگے،پھرنوجوانوں کے تصادم اور دہشت گردی میں اضافہ ہونے لگا، ایسے میں مقامی صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت نے سندھ میں خاص طور پر کراچی میں بڑے آپریشن کیے جس میں زیادہ تر بے قصور نوجوان نشانہ بنتے رہے۔ اس سے سندھ کے نوجوان طلبہ کو شدید نقصانات برداشت کرنے پڑے اور بیش تر نوجوانوں کے کیریئر تباہ ہوگئے۔
پاکستان کے نوجوانوں کی جدوجہد پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ گزرے ستر پچھتر برسوں میں نوجوانوں کو مصائب و آلام کا زیادہ عرصے تک سامنا کرنا پڑا اور تاحال لگ بھگ وہی صورت حال ہے۔پاکستان چونکہ پسماندہ ملک ہے۔ معیشت، سیاست، معاشرت انحطاط کا شکارہیں۔
نوجوان طبقہ کسی بھی رہنما سے جلد توقعات باندھ لیتا ہے اور جب وہ رہنما یا حکومت ان کی توقعات پر پوری نہیں اترتی تو وہ ان کی شدت سے مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ نوجوانوں نے ہر دور میں ہر ملک میں اپنا نمایاں کردارنبھایا۔ پاکستان جب سالم تھا اور مشرقی پاکستان میں آئے دن سیلاب اور سونامی آتے رہتے تھے اور جب جب ایسا موقع آیا مغربی پاکستان کے نوجوان اپنی پوری لگن اور بھائی چارہ کے جذبے سے سرشار مغربی پاکستان میں چندہ، کپڑے اور دوائیں جمع کرکے ڈھاکہ روانہ کرتے تھے۔
جب قدرتی آفات ٹوٹی ہیں نوجوانوں نے قومی یکجہتی اور بھائی چارہ کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ 2005 کا کشمیر کا زلزلہ بڑی آفت تھا۔ اس کی وجہ سے جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا، تاحال اس کا صحیح طور پر اب تک اندازہ نہیں لگایا جاسکا، حقیقت یہ ہے کہ اب نوجوانوں میں مایوسی، بے چینی اور بے راہ روی دکھائی دیتی ہے اس میں سارا قصور نوجوانوں کا نہیں ہے ،ملک کے رہنما اور حکومتیں بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔بالخصوص نوجوانوں کو منشیات کی طرف مائل کرنے، آتشی ہتھیار اٹھانے اور ناجائز ذرائع سے پیسہ حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے میں بہت سے بااثر اور طاقتور عناصر کا ہاتھ ہے۔
اس کی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوششیں کی جائیں تو یہ راز کھلتا ہے کہ ملک کے کچھ بااثر طاقتور حلقوں نے اپنی بدعنوانیوں، غیرقانونی سرگرمیوں اور لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے، عوام کی توجہ اپنی طرف سے ہٹانے کے لیے نوجوانوں کو اس پر تشدد راستے کی طرف دھکیلا ہے، چونکہ نوجوان جلد ایکشن پر راضی ہوجاتا ہے۔ متلون مزاجی اس کی فطرت میں شامل ہے اور مہم جوئی میں اس کو لسانیت کا احساس ہوتا ہے تو وہ جلد بھٹک جاتا ہے۔ ملک میں ہرسو ،دوعملی، رشوت ستانی، اقربا پروری اور تعصبات کی وجہ سے آج کے نوجوانوں میں مایوسی اور اپنے اطراف سے بیزاری عام دکھائی دیتی ہے۔ 70 کی دہائی سے قبل کالجوں اور جامعات میں ہفتہ طلبہ منایا جاتا تھا، جس میں سیمینار، کھیل، مشاعرے اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیاجاتا تھا۔
سالانہ درس گاہوں کے مابین کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ اس سے ان کی فکری اور جسمانی طور پر نشوونما ہوتی تھی۔ نوجوان مثبت اور صحت مند سرگرمیوں کی طرف مائل رہتے تھے، مگر 80کے عشرے اور بعد میں پورا معاشرہ اپنی روایات کھوتا چلا گیا۔ اس معاشرتی، معاشی اور سیاسی تنزلی نے نوجوانوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے۔اب تو ملک میں انتشار کا سماں ہے۔ ترقی کا گراف نیچے آچکا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہورہی، مالدار مزید مالدار اور غریب مزید غریب ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں نوجوانوں سے سب خیر ہے کی امید رکھنا عبث ہے۔ یہ ناامیدی اس لیے ہے کہ جو برائیاں اور کوتاہی معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہیں ان کو دور کرنے، ان کا تدارک کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش یا منصوبہ بندی کہیں نظر نہیں آتی۔
افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ملک کے بیش تر علاقوں میں نوجوان منشیات کے عادی ہوتے جارہے ہیں، ڈرگ مافیا کے نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کبھی چرس اور گانجا خطرناک تصور کیے جاتے تھےلیکن80 کی دہائی میں منشیات کلچر، گن کلچر اور انتہا پسندی کا کلچر عام ہوئے، ایسے میں افیون کی کاشت کی پیداوار میں دوگنا سے زائد اضافہ کرکے اس سے ہیروئن کی تیاری کے فارمولے پاکستان میں عام ہوئے اور ہیروئن کو سب سے زیادہ مہلک اور نقصان دہ ڈرگ قرار دیا گیا۔ بعدازاں مارضیا کے انجکشن اور چھپکلی کے جلے سفوف سے بھی ڈرگ تیار ہونے لگی جس کو سب سے زیادہ نقصان دہ قرار دیا گیا۔
مافیا اپنے ایجنٹوں سے یہ زہریلی منشیات نوجوانوں میں پھیلاتی ہے، جب کوئی اس کا عادی ہوجاتا ہے تو اس فرد کو اپنی منفی سرگرمیو ں کے لیے بھی استعمال کرتی ہے، بلیک میل کرتی ہے اور سب سے زیادہ مزید مذموم سرگرمیاں جاری رکھتی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی نوجوانوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے جو ہیروئن، چرس، الکوحل اور افیون کی عادی ہے۔ اسی کے عشرے ہی میں ملک کے ہر بڑے شہر میں ’’منشیات چھڑائو‘‘ اسپتال قائم ہوگئے، جہاں عادی افراد کو قیدی بناکر رکھا جاتا تھا اور ان کے لواحقین کو یقین دلایا جاتا تھا کہ آپ کا مریض بتدریج صحت مند ہورہا ہے مگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تھا وہاں منشیات بے دھڑک، بے خوف فروخت کی جاتی تھی، آخرکار حکومت کو یہ نام نہاد اسپتال بند کروانے پڑے۔
گزری صدی کے آٹھویں عشرے میں پاکستان کا معاشرتی زوال شروع ہوا جو تاحال کسی نہ کسی طور جاری و ساری ہے۔ نوجوانوں میں منشیات کا عام ہونا، ملک میں منشیات کلچر، گن کلچر، انتہا پسندانہ رویوں اور بے راہ روی کا عام ہونا سب کچھ اس دور سے شروع ہوا۔ ان معاشرتی برائیوں کے ساتھ ساتھ نقل مافیا کا کلچر بھی فروغ پاتا گیا۔ نقل کا رجحان اس قدر وسیع اور گہرا ہوتا گیا کہ اسکولوں کے معصوم طلبہ بھی اس منفی رجحان کے اسیر ہوتے گئے اورہورہے ہیں،پھر ٹیوشن سینٹرز کی اکثریت محض شوشا کرکے طلبہ سے مہنگی فیسیں وصول کرنے لگےاور بتدریج اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فیکلٹی کا برا حال ہے،یہ سب کچھ جان بوجھ کر ملک میں عام کیا گیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے، اس تلخ سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے زیادہ دماغ سوزی کی ضرورت نہیں۔ جواب واضح ہے۔
پاکستان میں طلبہ میں نقل کے نت نئے طریقے عام ہیں۔نقل مافیا کا لفظ اور اسی کے معنیٰ اب ایک کھلا راز ہے۔ نوجوان اس طرح کے منفی رجحانات کے فروغ کی وجہ سے بیشتر طلبہ پڑھائی میں دل نہیں لگاتے۔ آسان سے آسان راستے کی تلاش میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو یہ بات گرہ سے باندھ لینا چاہئے کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی باور کرارہا ہے تو وہ یاد رکھیں وہ دھوکہ دے رہا ہے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اب سے تیس چالیس برس قبل مغربی ممالک کی درس گاہوں میں بھی نقل کا رجحان پایا جاتا تھا، وہاں ایک دو فیصد سے زائد نہ تھا، البتہ جاپان میں ایک دور میں نقل کرنے کے شوقین طلبہ کے لیے ایسا کاغذ ایجاد کیا گیا تھا کہ طالب علم نقل کرتے ہوئے پکڑا جائے تو کاغذ کو فوری طور پر منہ میں ڈال لے، وہ کاغذ منہ میں جاتے ہی گھل جاتا تھا، ممتحن کو ثبوت نہ ملتا تھا۔
بعدازاں حکومت نے سخت قوانین وضع کرکے ہر منفی رجحان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ آج دنیا میں جاپان تعلیم، محقق اور اخلاقیات کے شعبوں میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں منفی رجحانات کو فروغ دینے میں کچھ سیاستدانوں کا، کچھ ماہرین تعلیم کا، کچھ حکومتوں کا کچھ جعلی ڈگری رکھنے والے اساتذہ کا اور کچھ والدین کا ہاتھ ہے۔ اب نوجوانوں میں مایوسی، گومگو کی کیفیات اور اپنے اطراف سے بیزاری کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات اور انٹرویوز کے حوالے سے ماہرین نے جو رپورٹس ترتیب دی ہیں وہ چشم کشا ہیں،نوجوانوں میں علمی قابلیت اور سیکھنے کے عمل میں بتدریج کمی آتی جارہی ہے۔ یہاں تک کے عام معلومات کے سوالات کے جواب بھی بمشکل دے پاتے ہیں۔ ہر سال اس نوعیت کی رپورٹس شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ملک کے ارباب اختیارکی ذمہ داری ہے کہ آج جدید دنیا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس گمبھیر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اصلاح و احوال کی کوشش کریں۔ اب ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ نوجوانوں میں تعلیمی صلاحیتوں کو فروغ دینے، انہیں دور جدید کے معرکوں کا سامنا کرنے اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہوگا۔ ہمارے نوجوانوں میں صبر، استقامت، جرات اور حوصلہ ایسے تمام جوہر بدرجہ اتم موجود ہیں صرف ان خوبیوں کو اجاگر کرنے اور نوجوانوں کی سرکاری اور قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دکھ اس امر پر بھی ہے کہ حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے کھیلوں کا شعبہ انحطاط کا شکار ہے جبکہ پانچویں اور چھٹی کی دہائی مختلف کھیلوں میں ملک بھی سرفہرست تھااور نوجوان بھی۔ ارباب اختیار نوجوانوں کے مسائل پر فوری توجہ مرکوز فرمائیں۔
2021ء میں ملک کی 17جامعات نے عالمی رینکنگ میں جگہ بنائی
2021 ء میں عالمی یونی ورسٹیوں کی جاری میں 93ممالک کی 1500 بہترین یونی ورسٹیوں کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔جن میں آکسفورڈ، اسٹینڈ فورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی یونی ورسٹی پہلی 500 یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بنا پائی البتہ 600بہترین یونیورسٹیوں میں عبدالولی خان اور قائد اعظم یونیورسٹی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کامسیٹس، ایگریکلچر یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس وٹیکنالوجی بھی فہرست میں موجود ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور ،بہاء الدین زکریا یونیورسٹی بھی جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور یو ای ٹی لاہور کے علاوہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پیر مہر علی شاہ ابڑو یونیورسٹی راولپنڈی، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور سرگودھا یونیورسٹی بھی 1500 یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ویٹنی اینڈاینمل سائنسز بھی اسی فہرست کا حصہ ہے۔ رینکنگ کے لیے مختلف جامعات کی ای کروڑ 30 لاکھ ریسرچ پیپرز کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ایک قوم، ایک نصاب، ایک نظامِ تعلیم
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت دو نومبر2020 کو اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی و صوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں کہا کہ، ملک بھر کے سرکاری و نجی اسکولوں اور دینی مدرسوں میں یکساں نصابِ تعلیم کا آغاز اپریل 2021ء سے ہو جائے گا جبکہ منصوبے کے مطابق چھٹی جماعت سے آٹھویں تک یکساں تعلیم کا سلسلہ سال2022ء سے اور نویں سے بارہویں گریڈ تک سال 2023ء سے شروع کیا جانا ہے۔ وزیراعظم کا مذکورہ اجلاس میں کہنا تھا کہ یکساں تعلیم کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظام طبقاتی نظام کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا۔
یہ بات اس حد تک درست ہے کہ نظام تعلیم کی تبدیلی، جس میں تمام طلبہ کو اعلیٰ معیار کی تعلیم تک یکساں رسائی ہوگی، کئی رجحانات میں کچھ نہ کچھ فرق ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے ،تاہم معاشرتی نظام میں تبدیلی لانے کے لئے کوئی بھی ایسی تبدیلی کافی نہیں ہوتی جو ایک ہی رُخ یا ایک ہی جہت کی حامل ہو۔ طبقاتی نظام کی تبدیلی کے لئے جلد بازی میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم شاید اتنے مثبت نتائج نہ دے جتنے فوائد معاشرے کو مجموعی طور پر بہتری کے طرف لے جانے کی ہمہ جہت اصلاحات سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک تعلیمی نظام میں اصلاحات کا تعلق ہے، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان اس باب میں اتفاق پایا جاتاہے۔
یکساں تعلیمی نصاب اور نظام کے لئے یہ یقیناً ایک اہم قدم ہوگا۔ اس لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کےمشترکہ ورکنگ گروپوں کومسلسل فعال رہنا ہوگا۔یہ کام محض قانون بنانے یا نصابی کتابوں کے تعین سے کہیں آگے تک جاتا ہے۔ ملک میں عشروں سے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا تقرر چونکہ سفارش یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اس لئے تربیت یافتہ ،دیانت دار اور اپنے کام سے محبت رکھنے والے اساتذہ کے حوالے سے ایک خلا کا سامنا ہے جسے ہنگامی بنیاد پر جگہ جگہ تربیتی ورکشاپوں کے انعقاد کے ذریعے دور کرنا ہوگا۔ اساتذہ کے ریفریشر کورسوں اور مستقل تربیتی انتظامات کے لئے ٹریننگ کالج بنانا ہوں گے۔ ریفریشر کورسز کا ایک مستقل نظام بناناہوگا۔
اساتذہ کی لیاقت اور مشاہروں کے تعین کے لئے یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ ان اساتذہ سے اچھے معاشرے کی تشکیل کی امید وابستہ ہے۔ امتحانات میں نقل کا رجحان روکنے کی تدبیر کے طور پر امتحانی طریق کار اور سوالات کے انداز سمیت کئی چیزوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق نئے نظام تعلیم میں اسلامیات کا مضمون درجہ اول سے بارہویں جماعت تک تمام مسلم طلبہ کو پڑھایا جائے گا جبکہ سیرت النبی ﷺ کی تعلیم، کردار سازی میں معاون ہوگی۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے مذہبی تعلیمات کےنام سے ایک الگ مضمون متعارف کراجارہا ہے۔
مختلف مضامین اور مہارتوں کے ضمن میں کئی ملکوں کے تعلیمی نظاموں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے تعلیم کے اعلیٰ معیار اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ بعض مفادات کے حامل افراد اور حلقوں کی مخالفتیں بھی سامنے آئیں گی لیکن یہ بات بہر طور ملحوظ رکھنا ہوگی کہ ہمارا تعلیمی نظام اور معیار ہی اقوام کی برادری میں ہمارے مقام کا تعین کرے گا۔ ہم اگر اپنے ہر بچے کی معیاری تعلیم تک رسائی یقینی اور مختلف علوم تک دسترس محض نام کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ مہارت کے لئے ممکن بنا سکے تو ہر میدان میں وطنِ عزیز کی ترقی کی راہ کھل جائے گی۔