ملتان کی سیاست میں ہلچل اس وقت مچی ،جب تین سال سے صوبائی نشست سے محروم رہنے والے سلمان نعیم کو سپریم کورٹ نے ریلیف دیا اور انہیں بطور ایم پی اے بحال کردیا ، یہ معاملہ ملتان کی سیاست میں پچھلے تین برسوں سے زیر بحث تھا ،ان تین برسوں میں میں سلمان نعیم نے اپنے حلقے میں اپنی موجودگی کا احساس دلائے رکھا اور ایم پی اے نہ ہونے کے باوجود وہاں لوگوں کے کام اور انہیں ریلیف فراہم کرتے رہے ، جبکہ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو عام انتخابات میں اس نشست پر سلمان نعیم سے شکست کھا گئے تھے، انہوں نے بھی ہمیشہ ملتان کی مصروفیات میں اس حلقہ کو اہمیت دی۔
اس صوبائی حلقہ217 میں تین سال سے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے، کیونکہ سلمان نعیم ڈی سیٹ ہونے کی وجہ سے اس حلقہ کے لئے صوبائی حکومت سے فنڈز نہیں لے سکے اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر اس حلقہ کو اس لیے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے نظرانداز کیا تاکہ حلقہ کے عوام کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ انہوں نے ان کی بجائے ایک نوجوان کو منتخب کرکے جو غلط فیصلہ کیا ہے اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے ،یہ حلقہ اس حوالے سے بھی بہت زیادہ زیر بحث رہا کہ اس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں کشیدگی رہی اور یہ سب کو معلوم تھا کہ جہانگیر ترین سلمان نعیم کی حمایت کر رہے ہیں۔
جبکہ شاہ محمود قریشی یہ چاہتے ہیں کہ سلمان نعیم پانچ سال تک اس حلقہ میں نا اہل رہیں، تاکہ 2023 کے انتخابات میںوہ دوبارہ انتخاب لڑنے کی جرات نہ کریں ، مگر یہ سلسلہ اس طرح جاری نہ رہ سکا، جس طرح شاہ محمود قریشی چاہتے تھے،اس حلقہ کی داستان یہ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے شاہ محمود قریشی اور سلمان نعیم میں یہ انڈرسٹینڈنگ پیدا ہوچکی تھی کہ قومی اسمبلی کی نشست سے شاہ محمود قریشی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر سلمان نعیم انتخاب لڑیں گے ایک عرصہ تک دونوں انتخابی مہم بھی چلاتے رہے۔
مگر جونہی انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا،توشاہ محمود قریشی نے اچانک یہ اعلان کیا کہ وہ قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر الیکشن لڑیں گے اور سلمان نعیم کو یہ کہہ کر دلاسہ دیا کہ دونوں نشستوں پر جیتنے کے بعد وہ ان میں سے ایک نشست سلمان نعیم کے لیے خالی کردیں گے، اس وقت یہ افواہیں گرم تھیں کہ شاہ محمود قریشی صوبائی سیٹ پرانتخاب اس لیے لڑ رہے ہیں کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلی بننا چاہتے ہیں۔
وہ خود بھی اپنے قریبی دوستوں کو یہی بتاتے تھے اور سلمان نعیم کو بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ وزیر اعلی بن کر جب وہ قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑیں گے تو اس پر سلمان نعیم کی کامیابی کو یقینی بنائیں گے، مگر ہوا یہ کہ سلمان نعیم نے جہانگیر ترین کے مشورے پر آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے، یہ وہ موقع تھا کہ شاہ محمود قریشی کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہونی چاہیے تھی، کیونکہ حلقہ میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ سلمان نعیم کو آخر وقت پر شاہ محمود قریشی نے ٹکٹ سے محروم کیا ہے، یہ اس رد عمل کا نتیجہ تھا کہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کی نشست اچھے مارجن سے جیتنے کے باوجود صوبائی نشست ہار گئے۔
پھر ایک اور مرحلہ آیا جب پنجاب حکومت بنانے کے لئے تحریک انصاف کو صوبائی اسمبلی کے آزاد ارکان کی ضرورت پڑی، اس موقع پر بھی شاہ محمود قریشی نے حتی الامکان کوشش کی کہ سلمان نعیم کو تحریک انصاف میں شامل نہ ہونے دیا جائے، مگر ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوسکا اور جہانگیر ترین انہیں اپنے ساتھ لے کر عمران خان کے پاس گئے اور انہیں پارٹی میں شامل کرا دیا یہاں سے مایوس ہونے کے بعد آخری حربے کے طور پر اپنی ہی پارٹی کے ایک ایم پی اے کو ڈی سیٹ کرانے کے لیے ایک انتخابی عزرداری داخل کرائی گئی۔
جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ جس وقت سلمان نعیم کے کاغذات نامزدگی داخل کرائے گئے تھے اس وقت ان کی عمر 25 سال سے کم تھی،الیکشن ٹریبونل نے سلمان نعیم کو اس بنیاد پر نااہل قرار دے دیا ، جس پر سلمان نعیم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، مگر وہاں ڈیڑھ سال تک سماعت بھی نہ ہو سکی ،جب سماعت ہوئی ، تو نادرا نے ریکارڈ پیش کیا کہ سلمان نعیم کا شناختی کارڈ درست ہے اور اس پر تاریخ پیدائش بھی صحیح لکھی گئی ہے، جس پر سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور تین سال بعد وہ اپنی نشست پر بحال ہو گئے۔
اس بحالی کی سب سے زیادہ خوشی جہانگیرترین کو ہوئی اور سب سے پہلے سلمان نعیم ان کے گھر گئے اور ان سے مبارکباد وصول کی ،اب یہ ساری صورتحال ملتان کی سیاست کو مستقبل میں ایک خاص سمت کی طرف جاتا دیکھ رہی ہے،کیونکہ کہ سلمان نعیم کی بحالی کو جس طرح ملتان میں سراہا گیا اور ان کے حلقہ کی عوام نے خوشی کا اظہار کیا ہے،اس سے یہی لگتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی یہ حلقہ بلکہ اس سے جڑا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی سلمان نعیم کےہدف پر ہوگا ، جبکہ یہی حلقہ اب شاہ محمود قریشی کے لیے ایک بڑا پل صراط بن گیا ہے ،جس سے گزرنا ان کے لیے شاید آسان نہیں ہوگا، اس حلقہ کی گونج اب پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے اور شاہ محمود قریشی کو اپنی سیاست کے لیے نئے داؤ پیج آزمانے کی ضرورت پیش آ چکی ہے۔
جہانگیر ترین کو اس لیے سلمان نعیم کی بحالی سے خوشی ہوئی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی نے ہمیشہ پارٹی میں ان کے خلاف لابنگ کی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے کان بھرے ہیں ،ان کا یہ بھی خیال ہے کہ چینی سکینڈل میں ان کے خلاف جتنی بھی کارروائیاں ہوئیں اس میں شاہ محمود قریشی اور ان کے ساتھی وزراء کا کردار بڑا اہم رہا ہے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم خیال گروپ میں سلمان نعیم نے نہایت سرگرم کردار ادا کیا، حالانکہ انہیں اس حوالے سے دباؤ کا سامنا تھا اور ان کے مطابق انہیں یہ پیغامات بھی ملتے رہے کہ اگر وہ جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کی حمایت سے باز آجائیں تو انہیں بحال کرانے میں مدد فراہم کی جا سکتی ہے ، مگر انہوں نے ایسی کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔