• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

افغان ایشو: حکومت اور اپوزیشن کا ایک میز پر آنا ضروری

پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو پی ایف یو جے سول سوسائٹی انسانی حقوق کی تنظیمیں وکلاء ، اے پی این ایس اور سی پی این ای مسترد کر کے ملک گیر تحریک چلانے کا انتباہ دے چکی ہیں وکلاء 9 ستمبر کو سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر چکے ہیں ، "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" نے حکومتی انتخابی اصلاحات کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور حکومتی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، 29 اگست کو کراچی میں حکومت کے خلاف جلسہ ہوگا۔ 

"پی ڈی ایم" کے سیکریٹری جنرل شاہد خاقان عباسی کی رائے ہے کہ افغان پالیسی طے کرنے کے لیے پارلیمان ہی بحث کا واحد راستہ ہے ، "پی ڈی ایم "کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے طالبان کی کامیابی کو خوش آئند قرار دینے پر مسلم لیگ( ن) نے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دے دیاہے ،وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ" پی ڈی ایم "کی 8 جماعتیں افغان ایشو پر یکسو نہیں ہیں انہیں صرف تنقید کرنا آتی ہے، پی ڈی ایم اپوزیشن نے خبروں میں اپنا وجود باقی رکھنے کے لئے بنا رکھا ہے ورنہ اپوزیشن عوامی حمایت کھو چکی ہے۔ 

مسلم لیگ میں ن اور ش کا مقابلہ جاری ہے انشااللہ معیشت کو بلند کرکے مہنگائی پر قابو پا لیں گے اور آیندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے سیاسی چوروں کو سیاست سے مستقل آؤٹ کر دیں گے، نواز شریف سزا یافتہ مجرم ہے اسے مجبوراً پاکستان واپس آنا ہی پڑے گا ورنہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دینا پڑے گی ، عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا ،کوئی این آر او نہیں ہو گا۔ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف طالبان کی کامیابی کوئی انہونی بات نہیں، دوحہ مذاکرات سے اس پر کام ہو رہا تھا امریکہ نے اپنی فوجیں نکال کر کرطالبان کو افغانستان فتح کرنے کا موقع فراہم کیا۔

افغانستان میں حالات کس کروٹ بیٹھے ہیں؟ کس طرح کی حکومت بنتی ہے ؟طالبان جو کہہ رہے ہیں کیا اس پر عمل بھی کر پائیں گے۔افغان ایشو کے حل کے لیے پاکستان کا کردار مثبت رہا ہے، پاکستان نے امریکی فوجوں کے انخلا اور افغانستان میں قومی حکومت کے قیام کے سلسلے میں بڑی کوششں کی ہے بدقسمتی سے عالمی سطح پر تو ان کا ادراک کیا جا رہا ہے مگر غیر حکومتی سیاستدانوں کو اس کا ادراک نہیں ہوا،افغان ایشو پر پاکستان کے کردار کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے ، مخالفین کا الزام ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)ابھی تک افغان ایشو پر گومگوں کی کیفیت میں ہے اسے اس سلسلے میں قومی کردار ادا کرنا چاہیے اور قومی سیاسی جماعت بن کر کھل کر اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ صرف حکومتی کام نہیں ہے افغان ایشو پر پوری قوم اکھٹی اور یکسو ہونی چاہیے، بدقسمتی سے حکومت نے بھی ابھی تک اپوزیشن کو افغان ایشو پر اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، اور تو اور سیاسی حلیفوں کو بھی ساتھ بٹھانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، حالانکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانتے ہیں کہ افغانستان میں صورتحال بہتر نہ ہونے کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہونے کا اندیشہ ہے ، کے پی کے ،بلوچستان اور سندھ میں افغانوں کی آمد کے بعد صورتحال بے قابو ہو جائے گی۔ 

حالات کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم عمران خان تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ بٹھائیں اور افغان ایشو کے ایک نکاتی ایجنڈے پر گفتگو کریں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو " ان کیمرہ "اجلاس بلانے کے لیے بیان تو دے چکے ہیں مگر ریکوزیشن نہیں کی انہیں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان جاری کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریگولیشن کرنی چاہیے تھی، اس ضمن میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا ہے حالانکہ عالمی صورتحال کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کو مثبت انداز میں استعمال کیا جانا چاہیے تھا پارلیمنٹ وہ آخری جگہ ہے جہاں سب سیاسی، مذہبی اور لسانی گروپ مل کر بیٹھ سکتے ہیں اور کھل کر قومی امور پر گفتگو کر سکتے ہیں۔

یاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے آخری پانچ اجلاس جس غیر منظم انداز میں منعقد کیے گئے اس میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا حالانکہ اس قومی پلیٹ فارم کو موثر استعمال کر کے سیاسی کشیدگی کو کم کیا جا سکتا تھا۔ شنید ہے کہ 26 اگست کو پی ٹی آئی کی حکومت کی تیسری سالگرہ منائی جا رہی ہے اور شاید وزیر اعظم عمران خان اس موقع پر اپنی تین سالہ کارکردگی پیش کرتے ہوئے مستقبل کی بھی منصوبہ بندی بتائیں مگر کیا ہی بہتر ہوتا کہ پہلے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں حکومت کی کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا اعلان کرتے جو کہ ایک آئینی تقاضا بھی ہے اور اس کے بعد وزیراعظم اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی بھی سے بھی آگاہ کر دیتے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ خارجہ امور پر وزیر خارجہ اور فارن آفس کے ترجمان کے علاوہ کسی کو نہیں بولنا چاہیے۔ افغان ایشو پر ہمارے دیگر وفاقی وزرا نے بیان بازی کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغان بحران کے بہت سارے پہلووں سے ناواقف ہیں ، انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پاکستان کی ہی کوششوں سے شروع ہوئے تھے اور نتیجہ خیز بھی ہوئے، دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان معاہدے میں امریکہ اتفاق کر چکا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کو تسلیم کرے گا اور افغانستان کے اندونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین