• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کیلئے کوشاں

پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے کارکنوں کومتحرک کرنا چاہتی ہے ،سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پارٹی کی طرف سے یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ،انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ بلاول بھٹو زرداری اس ہفتہ جنوبی پنجاب کے پانچ روزہ دورہ پر آرہے ہیں ، ان کا بیس کیمپ بلاول ہاؤس ملتان ہوگا ،تاہم وہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں ملتان ،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان کے مختلف شہروں کے دورے کریں گے ،سید یوسف رضا گیلانی جب میڈیا کو یہ بتا رہے تھے،تو ان کے لب ولہجہ سے لگتا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کے دورے سے جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی ایک بار پھر ایک بڑی جماعت بن کر ابھرے گیا اور لوگ دیوانہ وار بلاول بھٹو کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئیں گے۔

مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ،بلاول بھٹو کے پاس کوئی ایسی جادوئی چھڑی نہیں ہےکہ جسے وہ گھمائیں اور پیپلزپارٹی کے لئے کھل جا سم سم کی طرح سب دروازے کھل جائیں ،پیپلزپارٹی نے اپنی سیاست کو کچھ عرصہ پہلے کئے گئے فیصلوں سے جس طرح نقصان پہنچایا ہے ،اس کا ازالہ کرتے ہوئے ابھی بڑی دیر لگے گی ،اس وقت پیپلزپارٹی ایک ایسی فضا میں معلق ہے ،جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ایک اپوزیشن کے طور پر کام کرنا چاہتی ہے ،یا اس نے حکومت کی بی ٹیم کا منصب سنبھال لیاہے ،ادھر پی ڈی ایم اپنے جلسوں کے لئے متحرک ہے اور پیپلزپارٹی کو سرخ جھنڈی دکھائی جاچکی ہے۔

گویا اب یہ ممکن نہیں کہ پیپلزپارٹی کسی مرحلہ پر دوبارہ پی ڈی ایم کا حصہ بن سکے ،سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن 2023ء میں ہوتے ہیں ،توان دو سالوں میں پیپلزپارٹی کا کردار کیا رہے گا ؟کیا وہ حکومت کے خلاف بلاول بھٹو کے ہلکے پھلکے بیانات کے سہارے خود کو زندہ رکھ سکے گی ؟کیا عوام کے دلوں میں کوئی ایسی امید پیدا کرسکے گی کہ جس پروہ اسے اپنے مینڈیٹ کے قابل سمجھیں ؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں بھی صفائیاں دیتی پھر رہی ہے اور سندھ کو پارٹی نے جس طرح بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے اورجس طرح کراچی کو ایک بڑا شہر ہونے کے باوجود مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے اور عوام کو پینے کا صاف پانی تک نہیں دے سکی ،اس کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجاب یا بلوچستان اور خیبرپختوانخواہ کے عوام اس سے امیدیں باندھ لیں۔

ہاں اگر پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں رہتی اور اس کے پلیٹ فارم سے ایک جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ،تواس کے بارے میں عوام کے تاثرات بدل سکتے تھے ،مگراب تو وہ سیاسی منظرنامے پر تنہائی کا شکار نظرآتی ہے ،کیا بلاول بھٹو میں اتنا دم خم ہے کہ وہ نیم مردے میںجان ڈال سکیں ؟ آخر وہ کس بات پر عوام کو اپنی طرف متوجہ کریں گے ؟یوسف رضا گیلانی کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی ہی عوام کی جماعت ہے اوروہی عوام کے مسائل کو سمجھتی ہے ،مگریہ کہتے ہوئے وہ شاید خود کو اس پیپلزپارٹی کے دور میں سمجھتے ہیں ،جب محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ تھیں ،اس وقت پیپلزپارٹی واقعی ہی چاروں صوبوں کی زنجیر تھی ،جو اب سکڑ کر لاڑکانہ تک محدود نظرآرہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے اور اس کا خیال ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے کہ جہاں سے اسے ایک بار پھر ایک بڑا مینڈیٹ مل سکتا ہے ،یہاں کی بڑی بڑی سیاسی شخصیات پر بھی وہ کمند ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سلسلہ میں آصف علی زرداری سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک سبھی کوشش میں مصروف ہیں ،یوسف رضا گیلانی باربار یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف پیپلزپارٹی ہی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنائے گی اور حکومت کے اس منصوبے کو رد کرتے ہیں کہ یہاں علیحدہ سیکرٹریٹ بنا دیا جائے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر سوال پھر وہی ہے کہ جنوبی پنجاب سے پیپلزپارٹی کو آخر مینڈیٹ کیوں ملے گا ،کیا اس لئے مسلم لیگ ن یہاں کمزوری اور اندرونی انتشار کا شکار ہے یا اس لئے کہ تحریک انصاف نے عوام سے جو وعدے کئے وہ پورے نہیں کئے ؟یہ باتیں اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں ،مگر سوال یہ ہے کہ لوگ پیپلزپارٹی کو ہی کیوں ووٹ دیں گے، اس عرصہ میں پیپلز پارٹی نے کون سا ایسا بڑ ا کام کیا ،جس کی بنیاد پر یہ سوچا جاسکے کہ پیپلزپارٹی مستقبل میں عوام کی نمائندگی کی اہل ٹہرے گی۔ 

جہاں تک جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی بات ہے ،تو یہی یوسف رضا گیلانی جب ملک کے وزیراعظم تھے ،اس وقت انہوں نے اسے صوبہ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ،حالانکہ اگر پیپلزپارٹی چاہتی تو دیگر سیاسی جماعتوں کو قائل کرکے یہ بڑا کام کرسکتی تھی ،مگر لگتا یہی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے ایشو کو ہرجماعت اس لئے زندہ رکھنا چاہتی ہے ،تاکہ اس پر سیاست کرسکے ،اب لگتایہی ہے کہ بلاول بھٹو بھی جنوبی پنجاب میں اس بات کا تذکرہ کریں گے اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے وعدے دہرائیں گے۔

مگر اب جنوبی پنجاب کے عوام شاید اس قسم کے طلسماتی وعدوں کی گرفت میں نہ آئیں ،کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے انہیں علیحدہ صوبہ کے نام پر سبز باغ دکھا تے رہے ہیں ،تاہم پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ اگلا دور ان کا ہے اور وہ اپنے کارکنوں کو بھی یقین دلا رہےہیں کہ اب صرف پیپلزپارٹی کی حکومت بنے گی اور چاروں صوبوں سے اسے بھاری مینڈیٹ حاصل ہوگا ،بعض سیا سی حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے علیحدہ بھی اس لئے ہوئی ہے تاکہ وہ آئندہ سیٹ اپ میں مرکز اور صوبوں کی حکومت خود بنا سکے ،مگر یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔

اس میں کئی دشوار مرحلے بھی آئیں گےاور ممکن ہے کہ جس امیدپر پی ڈی ایم سے علیحدگی کا فیصلہ کیا گیا وہ بر نہ آئے۔دوسری طرف مخدوم شاہ محمود قریشی بھی ملتان آئے اور انہوں نے اپنی عوامی رابطہ مہم کو تیز کیا ،یاد رہے کہ پچھلے ہفتہ ان کے سیاسی حریف سلمان نعیم جب ملتان پہنچے ،تو ان کا اچھا استقبال کیا گیا اور وہ ایک لمبے جلوس کی شکل میں اپنی رہائش گاہ تک پہنچے ،اس خطرہ کی گھنٹی کو شاہ محمود قریشی محسوس کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں رابطے بڑھا دیئے ہیں ،تاہم انہوں نے اس بات سے گریز کیا کہ وہ مقامی سطح کی سیاست میں الجھیں اور انہوں نے پی ڈی ایم پر تنقید کی اور اسے ایک ایسا ناکام اتحاد قرار دیا ،جو بے وقت کی تحریک چلارہا ہےاور جس کی سرگرمیوں سے کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب تحریک انصاف نے اپنے تین سال مکمل ہونے پر بڑی بڑی تقریبات منعقد کیں اور اس خطرے کو نظرانداز کردیا کہ ان سے کورونا پھیل سکتا ہے ،تو پھر شاہ محمود قریشی اپوزیشن کو ہی الزام کیوں دے رہے ہیں ،بہرحال آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب سیاسی حوالے سے خاصا متحرک دکھائی دے گا اور یہاں بلاول بھٹو کے پانچ دن اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ پیپلزپارٹی وہ مقصدحاصل کرسکی ہے ،جس کے لئے بلاول بھٹو کو یہ دورہ کرنا پڑا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین