وطنِ عزیز کی سیاست کے رجحان اور مزاج کا اگر تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کی سیاست حادثات اور سانحات کے واقعات سے لبریز ہے۔ میدان سیاست کے بیشتر شہسوار ’’مقتدر قوتوں‘‘کے دروازے سے نمودار ہوتے ہیں اور مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اس خاص مقام کو حاصل کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جو حالات کی بجائے خواہشات کوترجیح دیتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہم نے اکثر اوقات یہ دیکھا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کسی طویل منصوبہ بندی اور ٹھوس حکمت عملی کی جھلک کسی مقام پر بھی نظر نہیں آئی بلکہ بیشتر دفعہ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے جو سیاست کا منظر آن واحد میں تبدیل کردیتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے تیار اور اختیار کی جانے والی تمام تدبیریں خاک میں مل جاتی ہیں اور سیاسی وفاداریوں کے بدلتے ہوئے مناظر صاف دکھائی دینے لگتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ’’انتظامی اصلاحات‘‘ کے حوالہ سے حکومت کی طرف سے جو ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا وہ صفر پلس صفر کے مترادف دکھائی دے رہا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ریفارمز کو تیار کرنے والےسابق اعلیٰ بیوروکریٹ کی ’’خستہ حالی‘‘ کے کئی واقعات کی بازگشت افسر شاہی کے حلقوں میں سنائی دیتی رہی ہے۔ وزارت قانون بھی تین حصوں میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ کئی معاملات میں محکمہ قانون کی اصلاحات بھی دم توڑتی نظر آ رہی ہیں اور مذکورہ وزارت کے بعض واقعات میں ’’احتساب اکبر‘‘ دو بڑے کلیدی عہدیداروں سے زیادہ طاقتور محسوس کئے جا رہے ہیں۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سفارتی محاذ پر بھی حکومت کی پالیسی کئی مخمصوں کا شکار ہے اور افغانستان میں آنے والی حالیہ تبدیلی سے وابستہ معاملات سے بھی حکومت گومگو کی کیفیت میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے۔ خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات اور امریکہ کے ناساز گار رویّے سے بھی خارجہ پالیسی میں کئی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں اور وزیر خارجہ کی صلاحیتوں کو بھی کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ سیاسی منظر نامے میں یہ بات واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ حکومت تین سال کے دوران صرف اعلانات پر ہی انحصار کررہی ہے جبکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں بھی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کے علاوہ کوئی کارہائے نمایاں دکھانے سے بھی قاصر نظر آرہی ہیں۔
مہنگائی اور بیروزگاری کےطوفان نے لاچار عوام کو ’’بے حال‘‘ کر رکھا ہے اور پسے ہوئے طبقے کے علاوہ ’’سفید پوش‘‘ عوام بھی پریشانی اور پشیمانی میں مبتلا ہیں۔ آٹے، چینی اور دیگر اشیائے ضروریات کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی بار بار بڑھتی ہوئی قیمتوں نےبھی بے بس عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ بجلی اور گیس کے ناقابل برداشت بلوں نےبھی خستہ حال عوام کے بَل نکال کر رکھے دیئے ہیں، صوبائی دارالحکومت میں سیاسی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات اور اتحادیوں کے شکوے دور کرنے کے سلسلہ میں وزیر اعلیٰ نہ صرف ’’کریڈٹ‘‘ لے رہے ہیں بلکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ریاست مدینہ کے بلند بانگ دعویدار ترجمان کے ذریعہ اپنی کمپنی کی مشہوری کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
لاء اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور خواتین کے علاوہ بچوں سے ہونے والی زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ نے حکومت کے انتظامی اقدامات کا راز فاش کر دیا ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں دلخراش واقعات کے بڑھنے کی وجہ سے عوام میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں اور گڈگورننس کا نہ صرف تذکرہ زبانِ زدعام ہے بلکہ واشگاف طور پر ان کے ’’مثالی منتظم‘‘ ہونے کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی سیاسی حلقوں میں گردش کر رہی ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز شریف کو خاص طور پر ’’ٹارگٹ‘‘ کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کا جو مقدمہ بنایا گیا ہے اس کے بارے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت میں دائر ریفرنس کو دوبارہ ایف آئی اے کی عدالت میں علیحدہ مقدمہ کی صورت میں چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ہر لحاظ سے غیر قانونی ہے۔
پی ڈی ایم کو دوبارہ فعال بنانے اورپارٹی کو متحد رکھنے کے سلسلہ میں میاں شہباز شریف ایک جاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا حالیہ دورہ کراچی بھی اسی سلسلہ کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے ، مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیے کے معاملہ سے بالاتر ہو کر وہ اپنے قائد میاں نواز شریف سے بدستور مشاورت اور رہنمائی لے رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے خاندانی اختلافات کے حوالہ سے جو تاثر پھیلایا جا رہا ہے وہ میاں شہباز شریف کی نظر میں ایک ’’مفروضے‘‘ کے مترادف ہے اور اس بارے میں انہوں نے واضح طور پر واشگاف انداز میں حکومت کو پیغام دیا ہے کہ انہوں نے تین بار وزارت عظمیٰ کو ٹھکرا کر ثابت کیا ہے کہ ان کے نزدیک اپنے قائد اور بڑے بھائی کی وفاداری سے بڑھ کر کوئی عہدہ نہیں ہے اور ان کے خاندان کا ہر فرد حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے جھوٹے مقدمات اور جعلی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہے۔