• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت کے 3 سال: سیاسی میدان مارلیا، معاشی کامیابیوں کیلئے پرعزم

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہوگئے ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے وزیر اعظم عمران خان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس اعتماد کی وجہ انہیں سیا سی میدان میں ملنے والی کا میابیاں ہیںجو ان کی سیا سی پوزیشن کو بتدریج مستحکم بنا رہی ہیں ۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ اپو زیشن منتشر ہے بلکہ باہم دست و گریبان ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے تین سال مکمل ہونے پر جناح کنونشن سنٹر اسلام آ باد میں ایک خصوصی تقریب سے خطاب کیاجسے ملک بھر میں بڑی سکرینوں کے ذ ریعے دکھانے کے انتظامات کئے گئے۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں حکومت کو تین سال میں حاصل ہونے والی کا میابیوں کو گنوایا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ معیشت کے اعشاریے اب بہتر ہوگئے ہیں اور لوگ خوشحال ہورہے ہیں ۔ وزیر اعظم کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ بیورو کریسی ہر حکومت کو کا میابیوں کی کتاب تیار کرکے دے دیتی ہے۔ حالات کی خو شنما تصویر کو اجاگر کردیتی ہے۔ ناکامی کو چھپا لیتی ہے۔ اب بھی عمران خان کو یہ بات نہیں بتائی جا رہی کہ ان کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے جس نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔

لوئر مڈل کلاس ختم ہوگئی ہے اور سفید پوش طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو سیا سی محاذ پر بلاشبہ کا میا بیاں ملی ہیں لیکن معاشی محاذ پر انہیں اب بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ان کی حکومتیں بن گئی ہیں ۔ سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی شکست نے وسطی پنجاب میں مسلم لیگ کی مضبوط بلکہ ناقابل شکست تصور کئے جا نے والے قلعہ میں شگاف ڈال دیا ہے۔جہانگیر ترین گروپ سے نذیر چوہان کو توڑ کر ترین گروپ میں بھی شگاف ڈاال دیا گیا ہے۔گروپ کے دیگر ارکان کو توڑنے کا بھی ٹاسک دیاگیا ہے۔

پی ڈی ایم نے کراچی کے جلسہ کے بعد ملک بھر میں جلسوں اور بعد ازاں لانگ مارچ کا پلان بنایا ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ اس سے قبل پی ڈی ایم ملک گیر جلسے کرکے جب لانگ مارچ کا وقت آیا تو تقسیم ہوگئی تھی ۔ اب بھی پیپلز پارٹی کے بغیر نہ تو اپوزیشن کی تحریک نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ سے استعفوں کا کارڈ موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن نے پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے پہلے دن سے احتجاج شروع کردیا تھا اور مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کیا تھا مگر مڈ ٹرم تو گزرچکی ہے ۔ اب عمران خان خان کی حکومت بظاہر پانچ سال پورے کرے گی۔

اپوزیشن اس وقت اسے نہ ان ہائوس تبدیل کرنے پوزیشن میں ہے اور نہ ہی احتجاج سے گرانے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ ہومیو پیتھک احتجاج چلتا رہے گااور اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرلے گی۔ ان ہائوس تبدیلی پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس وقت افغانستان کی صور تحال ایسی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پا کستان میں کسی سیا سی مہم جوئی کی ہر گز حوصلہ افزائی نہیں کرے گی۔ عمران خان قسمت کے دھنی ہیں ۔روحانیت سے ان کا لگائو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ بھی ان کی طاقت کا سبب ہے۔ ان کا مزاج بھی ایسا ہے کہ وہ دبائو میں نہیں آتے ۔ چیلنج قبول کرتے ہیں اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ 

عمران خان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اب اپنے اگلے دوسال کی حکمت عملی از سر نو مرتب کریں ۔ اپنی ٹیم کو بہتر بنائیں۔ نئے با صلاحیت چہرے سامنے لائیں۔ ان کے ایک غیر منتخب مشیر ڈاکٹر عشرت حسین رخصت ہوگئے ہیں ۔ وہ تین سال میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لاسکے سوائے چند محکموں کے ردو بدل اور چند ہزار پو سٹوں کے خاتمہ کے۔ عمران خان پہلے تو یہ تسلیم کریں کہ ملک میں مہنگائی ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے عملی اقدامات کریں ۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے جو کام نہیں کیا وہ یہ ہے کہ 18ویں تر میم کے بعد جو سبجیکٹ صوبوں کو چلے گئے ہیں ان کی وزارتیں ختم کی جائیں جنہیں بیو ر وکریسی نے نئے نام سے دو بارہ بنو ادیا ۔ 

جب تک بھاری انتظامی ڈھانچہ کم نہیں کیا جا ئے گا اس وقت تک حکومتی اخراجات کم نہیں ہوں گے۔ دوسرا چیلنج وہ حکومتی ادارے ہیں جو مسلسل خسارے میں ہیں لیکن تین سال گزرنے کے باجود حکومت ان کی نج کاری نہیں کرسکی ۔ موجودہ کابینہ میں سب سے ناقص کا کردگی نج کاری ڈویژن کی ہے۔ پا کستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل سست روی سے چل رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز ‘ پا کستان ریلوے ‘ پی آئی اے ‘ پوسٹ آفس ‘ یوٹلٹی سٹور ز کا رپوریشن اور پاور کمپنیاں خسارے میں جارہی ہیں ۔ ان اداروں کا سالا نہ مجموعی خسارہ ایک ہزار ارب روپے سا لا نہ ہے۔

تیسرا چیلنج برآ مدات میں اضافہ ہے۔ روں سال کے آ غاز سے ہی تجارتی خسارہ کی شرح بڑھ گئی ہے جو بالآخر خسارے میں اضافے کا سبب بنے گی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم نہیں رہا ۔ ڈالر کی شرح تبادلہ 165روپے پر چلی گئی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ تین سال میں ساتویں چیئر مین ایف بی آ ر کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ اہم عہدوں پر سلیکشن کس قدر سطحی انداز میں کی جاتی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے عوام میں بے چینی پائی جا تی ہے۔ 

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں ۔وجہ جو بھی ہے اس کی وجہ سے مہنگائی بہر حال بڑھتی ہے۔ عوام کی قوت خرید جواب دے رہی ہے۔ انرجی سیکٹر میں حکومت کی نا کامی یہ ہے کہ گردشی قرضہ تین سال میں بڑھ کر00 23ارب روپے ہوگیا ہےجو 2018میں 1200ارب روپے تھا۔

حکومت بجلی چوری اور گیس چوری کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔ سیا سی محاذ پر عمران خان کو اپنی حکمت عملی بدلنی چاہئے ۔ انتخابی اصلاحات اور نیب کے قانون میں تبدیلی کیلئے حکومت نے ابھی تک اپو زیشن کو ساتھ ملانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ اگر حکومت نے یکطرفہ طور پر انتخابی اصلاحات کیں اور الیکٹرانک وو ٹنگ مشین کا نطام رائج کیا تو اسے کوئی قبول نہیں کرے گا ۔اس سے حالات خرابی کی طرف جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی نشستیں خالی ہیں ۔ 

وزیر اعظم نے اپو زیشن لیڈر شہباز شریف کو خط لکھ دیا ہے جس میں حکومت کی جانب سے نام تجویز کئے گئے ہیں ۔ اگر وزیر اعظم دل کشادہ کرکے اپو زیشن لیڈر سے بالمشافہ مشاورت کا اہتمام کرلیں تو اس سے حکومت اور اپو زیشن کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو جا ئے گی کیونکہ دو ماہ کے بعد چیئر مین نیب کا عہدہ بھی خالی ہو نے والا ہے۔ چیئر مین نیب کی تقرری بھی آئین کے تحت وزیر اعظم اپو زیشن لیڈر کی مشاورت سے کرنے کے پابند ہیں ۔اگر مشاورت سے کسی غیر جانبدار شخصیت کی تقرری کر لی جا ئے تو بہت اچھا ہوگا۔ نیب کے قانون میں بھی سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں ضروری ترامیم کی جائیںتاکہ اپوزیشن کی جانب سے انتقامی کا روائی کی شکایت کا ازالہ ہوسکے ۔

اس کا فائدہ خود پی ٹی آئی کو بھی ہوگاکیونکہ نیب نےحکومت ختم ہو نے پر انہیں بھی نوٹس جاری کرنے ہیں ۔ جہاں تک افغانستان کی صورتحال کا تعلق ہے تو اس وقت سفارتی محاذ پر حکومت کیلئے سب سے حساس اور اہم چیلنج یہی ہے کہ کس طرح بڑی طاقتوں میں توازن قائم رکھتے ہوئے اپنے کردار کو کلیدی بنائے ۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ اس ایشو پر بھی اپو زیشن کو اعتماد میں لیں ۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہ بالمشافہ پا ر لیمانی پارٹیوں کی قیادت سے ملیں ورنہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر ایوان کو اعتماد میں لیا جا ئے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس13 ستمبر کو ہوگا۔ 

جس سے صدر مملکت خطاب کریں گے۔ انکے خطاب سے چوتھے پارلیمانی سال کا آ غاز ہوجا ئے گا۔ اس کے فوری بعد پارلیمنٹ کو حکومت اعتماد میں لے اور بتائے کہ کتنے ہزار لوگوں کو ویزے جاری کئے ۔ کتنے لوگ کب تک پا کستان میں قیام کریں گے۔ کیا افغان مہاجرین کو پا کستان میں آ باد کیا جا ئے گا۔ کیا نئی افغان حکومت کو تسلیم کیا جا ئے گا۔ 

اپوزیشن کی جانب سے ظاہر کئے گئے تمام خدشات اور تحفطات اور سوالات کا جواب دینا حکومت کا فرض بنتا ہے۔ مو جودہ حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم قومی اتفاق رائے اور سیا سی ہم آہنگی کا ماحول پیدا کریں ۔ اپنے عقابوں کی لفظی گولہ باری اور جا رحانہ رویہ فی الحال رکوا دیں ۔ میثاق معیشت کیلئے سازگار ما حول بنائیں۔ سب مل کر اپنے پارٹی مفادات سے بلند ہو کرملک کی بہتری کیلئے سوچیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین