افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کی سلامتی کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہو گا۔ سی پیک کو افغانستان سے منسلک کر کے اہم تجارتی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کی طرف سے افغانستان کو سی پیک میں شریک کرنے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ تمام پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان عوام کی طرف سے طالبا ن حکومت سے بھر پور تعاون کا سلسلہ جاری ہے اور افغانستان کے عوام کی طرف سے کہا جا رہا ہےکہ افغان فطرتاً آزادی پسند ہیں۔
طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے پر خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور جے یو آئی(س) کی طر ف سے خوشی منائی جا رہی ہے۔ پشاور میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے خیر مقدمی بینرز لگائے گئے جس پر پولیس کی طرف سے بینر لگانے والے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ دینی جماعتوں کی طرف سے طالبان کی حکومت کاخیر مقدم کیا جا رہا ہے تاہم قوم پرست جماعتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
خیبر پختونخوا میں سات قوم پرست و ترقی پسند سیاسی جماعتوں قومی وطن پارٹی، اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، مزدور کسان پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی اور پانچ قوم پرست و ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے اتحاد پختونخوا جمہوری اتحاد کی طرف سے صوبے سے ہونے والی ناانصافیوں کا راستہ روکنے صوبے کے وسائل پر صوبے کے اختیار۔18ویں ترمیم کے تحفظ، صدارتی نظام کی مخالفت، پختونوں کے لئے متحدہ صوبہ بنانے اور صوبوں کو بااختیار بنانے کے لئے جدوجہد تیز کر دی گئی ہے جبکہ پی ٹی ایم کے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ، اے این پی کے سابق صوبائی صدر و سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، اے این پی کے رہنما و صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ، اے این پی کی قومی اسمبلی کی سابق ممبر بشریٰ گوہر اور اے این پی کی رہنما جمیلہ گیلانی کی طرف سے خیبر پختونخوا کے حقوق کے حصول کے لئے نیشنل ڈیمو کریٹک مومنٹ کے نام سے نئی قوم پرست و ترقی پسند سیاسی جماعت بنا لی گئی ہے۔
نئی قوم پرست جماعت بننے کے بعد خیبر پختونخوا کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی قوم پرست و ترقی پسند سیاسی جماعتوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔خیبر پختونخوا سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، مردان، صوابی، بونیر دیر،ملاکنڈ، سوات، شانگلہ، ہزارہ اور جنوبی اضلاع میں حکمران جماعت اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درجنوں رہنما اور ہزاروں کارکن قومی وطن پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ ہزارہ سے سابق صوبائی وزیر ابرار حسین تنولی، پشاور سے پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر سید ظاہر علی شاہ کے چچا زاد بھائی فخر سادات سید فیاض علی شاہ، چارسدہ سے سابق وفاقی وزیر نثار محمد خان گل آباد کے صاحبزادے، حکمران جماعت پی ٹی آئی پشاور کے ریجنل صدر و ممبر قومی اسمبلی فضل محمد خان کے بھائی اور دو بار ضلع چارسدہ کے ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین منتخب ہونے والے ممتاز سیاسی رہنما نصیر محمد خان بھی ہزاروں ساتھیوں سمیت قومی وطن پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اے این پی کو متحرک کرنے کے سلسلے میں اے این پی کے ناراض رہنمائوں و کارکنوں کو منانے کے لئے اے این پی کے بزرگ سیاستدان و سابق وفاقی وزیر الحاج غلام احمد بلور، سابق صوبائی وزیر فرید طوفان اور باز محمد خان پر مشتمل کمیٹی بنا کر اے این پی کے ناراض رہنمائوں و کارکنوں سے رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں تاہم اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی طرف سے باچا خان مرکز پشاور میں میوزک اکیڈمی بنانے اور لوگوں کو موسیقی اور ڈھول باجا سکھانے کے اعلان پر اے این پی کے بعض رہنمائوں اور کارکنوں کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اے این پی میں ایک نیا گروپ بن گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کو متحرک و فعال بنانے کے لئے پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہمایون خان کو صوبائی صدارت سے ہٹا کر سابق وفاقی وزیر نجم الدین خان کو صوبائی صدر بنا دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی سکڑتی جا رہی ہے ۔ تجربہ کار و ہر دلعزیز سیاستدان آفتاب احمد خان شیرپائو جب پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر تھے تو وہ خیبر پختونخوا میں دو بار پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تاہم آفتاب احمد خان شیرپائو کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی صوبائی قیادت کے بحران کا شکار ہو گئی۔