• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ہم بلوچستان کے ایک دور افتادہ ضلع میں ایک مقابلۂ مضمون نویسی کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ میرا معمول یہ ہے کہ کسی بھی ضلع میں پہنچ کر وہاں کے ڈپٹی کمشنر سے ضرور رابطہ کرکے انہیں بھی شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ اس ضلع کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں انگریز کے دَور کی بہت پرانی بلڈنگیں ہیں۔ ضرور دیکھنی چاہئیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے کرم کیا۔ یہ بلڈنگیں چھائونی کے علاقے میں تھیں۔ انہوں نے چیک پوسٹ پر ہماری گاڑی کا نمبر دے دیا۔ مگر ہم جب وہاں پہنچتےہیں تو چیک پوسٹ والے صاف منع کردیتے ہیں۔ بات بھی سننے کے روادار نہیں ہیں۔ ہم واپس ڈی سی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنی گاڑی ڈی سی ہائوس میں چھوڑ دیں۔ ہماری گاڑی میں بیٹھیں۔ ایک سیکورٹی وین آپ کے ساتھ جائے گی۔ ہم جب اس چیک پوسٹ پر پہنچتے ہیں تو ہمیں اندر جانے کی اجازت نہ دینے والا عملہ بڑے ادب اور خلوص سے ہمیں سلیوٹ کررہا ہوتا ہے۔ ہم مطلوبہ بلڈنگوں کو دیکھتے ہیں۔ تصویریں بناتے ہیں۔‘

یہ ہوتی ہے ایک ڈپٹی کمشنر کی طاقت اور منصب۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے ملنے ملانے، کھل کر باتیں کرنے کا دن۔ بہت سے موضوعات ہیں۔ طالبان کی نئی حکومت۔ الیکٹرونک ووٹنگ۔ پاکستانی معیشت۔ مگر میں آج سسٹم پر بات کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے ہاں سابق آقا انگریز قائم کرگئے تھے جو اب تک لائق عمل ہے اور نتیجہ خیز بھی۔اس سسٹم کا سب سے اہم پرزہ ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جس کی بدولت ضلع کا ہی نہیں، صوبے کا انتظام چلتا ہے۔ جس کی طاقت ریاست کی طاقت ہوتی ہے مگر آج کل سب سے کمزور عہدہ بھی یہی ہے۔ کبھی پنجاب سے خبریں آتی ہیں کہ اتنے اضلاع کے ڈپٹی کمشنر تبدیل کردیے گئے۔ کبھی سندھ میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے۔ کبھی خیبر پختونخوا۔ کبھی بلوچستان میں۔ ان عہدوں پر سیاسی تقرریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ان کے کام میں ایم این اے، ایم پی اے، وزراء، وزیر اعلیٰ بہت مداخلت کرتے ہیں۔ ریاست کے ایک سب سے مرکزی منصب دار کو وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور گورنر اپنا خاندانی ملازم سمجھ کر مختلف احکامات دیتے ہیں۔ اس سے فیصلے جبری بدلواتے ہیں۔ اور پھر اسے اچھی حکمرانی بھی کہتے ہیں۔

میں آج بڑے وثوق سے اپنے مشاہدے اور تحقیق کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں افراتفری، انتشار، ریشہ دوانی اور طوائف الملوکی کی بنیادی وجہ ڈپٹی کمشنروں کے معاملات میں سیاسی مداخلت ہے۔ انگریز ایک گورے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے میلوں میل پھیلے ضلع کے سرداروں، علماء، امراء کو قابو میں رکھتا تھا۔ اس زمانے کے ڈی سی اور ایس پی گھروں کے رقبے اور طرز تعمیر دیکھ لیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی اسی نوع کے با اختیار، با بصیرت اور مدبر ڈپٹی کمشنر نظر آتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب، مصطفیٰ زیدی، مسرت زبیری، شاہد عزیز صدیقی، شفیق پراچہ اور بہت سے۔ مرکزی حکومت، منتخب یا فوجی ان کے ذریعے ہی ضلع چلاتی تھی۔ ان ڈپٹی کمشنروں کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا۔ کسی واقعے، احتجاج، جلسے جلوس کے بارے میں اس کا پریس نوٹ، ہینڈ آئوٹ حرفِ آخر ہوتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب کی ڈپٹی کمشنر کی ڈائری تو ہمارے ادب اور تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ڈپٹی کمشنر اپنے طور پر شہریوں کی مشاورتی کونسلیں بناتے تھے۔ ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان دنوں ہر ضلع کا سالانہ میلہ اسپاں و مویشیاں، کھیلوں کے مقابلے اس ضلع کی توانائی ثقافت و ادب کا مظہر ہوتے تھے۔ آل پاکستان مشاعرے بھی ہوتے تھے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو ڈپٹی کمشنروں سے رات گئے حال احوال لیتے تھے۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل تھے جو بعد میں پی پی پی کے وفاقی وزیر اطلاعات بھی بنے۔ غلام مصطفیٰ کھر بھی ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے صوبہ چلاتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلع کے انچارج بریگیڈیئر یا کرنل سے ہفتے میں ایک بار ضرور فون پر بات کرتے تھے۔

ایک ڈپٹی کمشنر پورے ضلع کا مسیحا، نباض، مورخ، ماہر اور درد مند ہوتا تھا۔ فرقہ وارانہ مسائل کو بھی وہ علماء سے میٹنگوں کے ذریعے حل کرتا تھا۔ کہیں کرفیو لگانا ہوتا تو یہ اس کا فیصلہ ہوتا تھا۔ آفات ناگہانی سیلاب ، زلزلہ، بڑی آگ یا وبا کے دنوں میں بھی ڈی سی کی معاملہ فہمی ہی چلتی تھی۔ پہلے تو یہ رواج ہی تھا کہ ایک افسر کو پاکستان کے مختلف اضلاع میں متعین کیا جاتا تھا تاکہ اس کے مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہو۔ وہ ایک صوبے تک محدود نہیں رہتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بھی اس کی تعیناتی ہوتی تھی۔ بازار میں قیمتوں پر کنٹرول، اچھا گوشت، اچھا دودھ اور دیگر اشیائے خوردنی کی فراہمی متعینہ نرخوں پر دستیابی بھی ڈپٹی کمشنر ہی کی ذمہ داری تھی۔ہر ڈی سی آفس میں ملک دشمن عناصر، فسادی، سیاسی اور مذہبی قانون شکنوں کی فہرستیں آویزاں ہوتی ہیں۔

سیاسی جمہوری حکومتوں نے ڈپٹی کمشنر کے منصب پر تابڑ توڑ حملے کرکے، سیاسی تقرریاں، تبادلے کرکے اس مرکزی بنیادی منصب کو بے اثر کردیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کی پہلے میعاد تین سال ہوتی تھی اور وہ افسر بڑے اطمینان سے اپنے فرائض انجام دیتا تھا۔ اس کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، ایس ڈی ایم، اے سی ایک وفادار ٹیم کی طرح متحرک رہتے تھے۔باہمی مشاورت سے احتجاج اور فسادات کو ہونے سے روک دیتے تھے۔ کووڈ 19 کے بعد پھر ہمیں اس عہدے کی اہمیت کا احساس ہوا۔ مجوزہ قواعد و ضوابط پر عملدرآمد ۔ لاک ڈائون ڈپٹی کمشنر کے ذریعے ہی ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت 135 اضلاع ہیں۔ ان 135 ڈپٹی کمشنروں کو اگر اپنے اختیارات قانون کے مطابق استعمال کرنے دیے جائیں ۔ وفاقی صوبائی حکومتیں، فوج اور عدلیہ ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اور غیر ضروری دبائو نہ ڈالیں تو یہ ملک میں امن و امان قائم رکھ سکتے ہیں۔ ایک سسٹم کو وجود میں لاسکتے ہیں۔ فنون لطیفہ کی سرپرستی کرسکتے ہیں۔ فرقہ وارانہ رجحانات پر قابو پاسکتے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کی سازشیں ناکام بناسکتے ہیں۔ بس وزیر اعلیٰ ڈپٹی کمشنر بننابند کردیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین