خیبرپختونخو احکومت کی جانب سے صوبے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کی ترقی اور قبائلی عوام کو ان کےآئینی اور قانونی حقوق دینے کے تمام وعدے محض اعلانات او راخباری شہ سرخیوں سے آگے نہیں بڑھ سکے، جس کی وجہ ان قبائلی اضلاع کے صوبے میں ضم ہونےکا کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان پسماندہ قبائلی اضلاع کے غریب قبائلی عوام ابھی تک ان کے جائز آئینی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے جس قبائلی عوام ابھی تک احساس محرومی بے چینی کا شکار ہیں، اور کسی بھی فورم موقع پاتے ہی وہ اپنی اپنی احساس محرومی اور بے چینی کا بھرپور انداز میں اظہار کرتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورت حال ہفتہ رفتہ کے دوران صوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں قبائلی اضلاع کے اپوزیشن اراکین نے جب قبائلی اضلاع میں بعض آسامیوں پر حالیہ بھرتیوں اور قبائلی عوام کو نظراندا زکرنے کامعاملہ ایوان میں اٹھایاتو حکومتی اراکین نے انہیں دلیل کے ساتھ جواب دینےاور انہیں مطمعین کرنے کی بجائے غیرشائستہ زبان میں جواب دیا اور بات گالم گلوچ اور مشت گریبانی تک پہنچی جس سے اور شدید ہنگامہ آرائی کے باعث ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہی تھی جس کے خلاف قبائلی اراکین نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر کے احتجاجی دھرنا دیا۔
صوبائی اسمبلی میں یہ صورت حال اس و قت پیدا ہوئی جب گزشتہ روز ایوان کااجلاس شروع ہوا تو ، اجلاس کے آغاز پر قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان نے قبائلی اضلاع کے حقوق کیلئے اسپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا شروع کیا، وقفہ سولات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے تحریک التوا پیش کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’’ 24اکتوبر2020کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز نے ضم اضلاع کیلئے481 مرد و خواتین نرسوں کی بھرتی کیلئے اشتہار دیا۔
تاہم ان481اسامیوں میں سے قبائلی اضلاع سے صرف 29 افراد کو بھرتی کیا گیا باقی تمام لوگ سوات، دیر اور چترال سے بھرتی کئے گئے جو قبائلی اضلاع کیساتھ زیادتی اور ان کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے،انہوں نے اسپیکر سےمعاملے کی تحقیقات کی درخواست کی ،جس پر صوبائی وزیرمحنت شوکت یوسفزئی نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ بھرتیاں قبائلی اضلاع سے نہیں بلکہ قبائلی اضلاع کیلئے ہورہی تھیں اسلئے صوبہ بھر سے امیدوار ان آسامیوں کیلئے درخواستیں دینے کے اہل تھے۔
انہوں نے موقف اختیار کیاکہ ان افراد میں ان کے ضلع شانگلہ سے بھی لوگ بھرتی ہوئے ہوں گے تاہم انہیں کوئی علم نہیں، تمام بھرتیاں میرٹ کے مطابق ہوئی ہیں جس پر اسپیکر ڈائس کے سامنے دھرنے پر بیٹھے قبائلی ارکان نے چور چور کے نعرے شروع کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جبکہ حکومتی اتحادی جماعت کے پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی تقریر کے دوران آپے سے باہر ہوگئے۔
اگرچہ شوکت یوسفزئی انہیں بار بار یقین دلاتے رہے کہ حکومت معاملہ کمیٹی میں بھجوانے کیلئے تیار ہے تاہم بلاول آفریدی نے اپنی تقریر اور احتجاج جاری رکھا جبکہ دھرنا دینے والے قبائلی ارکان نے بھی احتجاج اور نعر ہ بازی شروع کردی اس دوران شوکت یو سفزئی اور بلاول آفریدی کے درمیان تلخ جملوں اور نازیبا الفاظ کا تبادلہ شروع ہوا جبکہ صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش اور قبائلی ضلع مہمند سے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن نثار خان کے درمیان بات گالم کلوچ تک پہنچی اور دونوں اراکین ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئے جس سے سکیورٹی اہلکاروں کی دوڑے لگ گئیں۔
اس موقع پر ایوان کے سارجنٹ ایٹ آرمز سمیت سکیورٹی اہلکار دونوں ارکان کو دست و گریباں ہونے سے روکنے کیلئے پہنچے جبکہ کئی حکومتی اور اپوزیشن ارکان بھی بیچ بچاؤ کراتے رہے تاہم دونوں جانب سےشدید ہنگامہ آرائی اور غیر پارلیمانی جملوں کا تبادلہ جاری رہا جس پر اسپیکر نے صورت حال کنٹرول کرنے میں ناکامی پر اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا،تاہم معاملہ یہی پر ختم نہیںہو اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن اراکین نے تیسرے روز بھی قبائل کے حقوق کے لئے اسپیکرڈائس کے سامنے احتجاجی دھرنا جاری رکھا، جس پرپینل آف چیئرمین ادریس خٹک نے استدعاکی کہ احتجاج موخر کرکے سیٹوں پر چلے جائیں جس کے بعد بلاول آفریدی اوران کے ساتھی اراکین اپنی نشستوں پر چلے گئے اس موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے کہاکہ جو لوگ مجھے بچہ سمجھتے ہیں ان کو بتانا چاہتا ھوں کہ میں بچہ نہیں بلکہ لندن سے پڑھا ہوں اور قبائلی عوام کی آواز ہوں، میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس کی صوبہ میں سب سے زیادہ زمینیں ہیں اور صوبہ میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام کیساتھ ظلم جاری ہے، قبائلی علاقوں کی آسامیوں پر دوسرے اضلاع کے لوگ بھرتی ہورہے ہیں، قبائلی علاقوں کیلئے خصوصی ٹاسک فورس بنائی جائے ،انہوں نے کہا کہ مجھے طعنہ دیاگیا کہ میں پیسوں کے زورپر منتخب ہواہوں احتساب کاعمل شروع کیاجائے اگر مجھ پر ایک روپیہ بھی ناجائز ثابت ہوا تومیں سیاست چھوڑدونگا، یا پھر الزام لگانے والے وزرا معافی مانگے،جس پر صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی اپنی روایات ہیں ایک دوسرے کا احترام ہم پر فرض ہے۔
اس صورت حال کے باعث حکومت اورقبائلی اضلاع سے منتخب عوامی نمائندوں کے درمیاں تنائو کا عمل جاری ہے،یہ امر قابل افسوس ہے کہ خیبرپختونخوا میں انضمام سے قبل قبائلی علاقوں کی جو حالت آج انضمام کے بعد اس سے بھی بدتر ہوچکی ہے انضمام سے قبل ان علاقوں میں جوتھوڑے بہت ترقیاتی کام ہوتے رہتے تھے آج زبان اعلانات اور دعووں کے برعکس قبائلی اضلاع میں ترقی کے پہیے کو مکمل طورپر بریک لگ چکی ہے۔
قبائلی عوام میں بے روگاری اور غربت انتہاکو پہنچ چکی ہے،حتی کہ ان علاقوں کی سول انتظامیہ بھی مکمل طورپر بے بس ہے اورعلاقے کا کنٹرول مخصوص اداروں کے ہاتھ میں ہے جن کی اجازت کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی،حیرت کی بات یہ ہے کی حکومت آئے روز ان پسماندہ قبائلی اضلاع میں اربوں کے خرچ کرنے اوراربوں کےترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کرتی ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
معلوم نہیں قبائلی اضلاع کے نام پر یہ اربوں کے ترقیانی فنڈز کون خرچ کررہاہے اور کہاں خرچ کئے جارہے ہیں کیونکہ قبائلی عوام کی زندگی دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،قبائلی اضلاع میں تبدیلی اورترقی کا نام و نشان نظر نہیںآرہاہے،ایسے میں قبائلی اضلاع کے منتخب نمائندے ایوان میں احتجاج یا اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔