• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رنگ اس طاقت کو کہتے ہیں جو ہمیں ایک حسیاتی تجربے سے دوچار کرتی ہے ۔رنگوں کی فلاسفی پر بحث کی جائے تو ایسے سوالات سامنے آجاتے ہیں کہ رنگوں کی فطرت کیا ہے ؟ 

ان کی اصلیت کیسی ہے؟ اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیاہر شخص میں رنگوں کو سمجھنے کی اتنی قابلیت ضروری ہے کہ وہ ان کا صحیح ادراک کرتے ہوئے انہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پراستعمال کر سکے ؟ 

لمحہ موجود کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں رنگوں کے بے تحاشا استعمال نے معنی کے اعتبار سے انہیں ایک وسیع بصری فرہنگ سے وابستہ کر دیا ہے ۔

رنگوں کی معنویت مختلف تہذیبوں اور ادوار میں بدلتی بھی رہتی ہے ۔ایک وقت تھا کہ رومن تہذیب میں جامنی رنگ طاقت ، اقتدار اور اشراف کا رنگ سمجھا جاتاتھا اور بڑے لوگ جامنی رنگ کے فرغل پہنتے تھے ۔ 

ابھی دوسری جنگِ عظیم سے پہلے یورپ اور امریکہ میں سرخ رنگ بہت زیادہ پہنا جاتا تھالیکن جنگ ختم ہونے کے بعد لوگوں نے ہلکے نیلے رنگ کے ملبوسات پہننے شروع کردیے ۔ 

شاید امن کی علامت کے طور پر ۔ لوگ سیاسی رہنمائوں کے لباس کےرنگوں سے ان کاطرز حکمرانی اخذ کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اکثر سیاسی شخصیات اپنے ذاتی اسٹائلسٹ سے باقاعدہ مشاورت کرتی ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ تر لال ٹائی پہنے نظر آتے تھے۔ 

لال رنگ طاقت کا نشان تھا ۔سرخ رنگ ایک جانب غصے ، تشدد، ظلم اوربے رحمی کا عکاس ہے۔ اس میں جرات، بہادری ،خوشی اور مہم جوئی کی علامت بھی موجود ہے۔ٹرمپ اپنی طاقت پر بھرپور اعتماد کےاظہار کےلئے سرخ ٹائی پہنتا تھا۔ اس کے برعکس باراک حسین اوبامہ نےاپنی صدارت کے شروع کے دنوں میں زیادہ تر نیلے رنگ کی ٹائی پہنی۔ 

اوبامہ ویسے بھی پراعتماد شخصیت کامالک تھا اور اس رنگ نے اس کی شخصیت کو مزید پراعتماد روپ میں پیش کیا۔ نیلا آسمان کا رنگ ہے ،روشنی کا رنگ ہے ، روح کا رنگ ہے،محبت کا رنگ ہے ۔مجھے اوبامہ کا نیلا رنگ آج اس لئے یاد آرہا ہے کہ میں تین سال سے نوٹ کر رہا ہوں کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے وارڈروب میں بھی نیلا رنگ کچھ زیادہ ہی چھایا رہا ہے۔ 

اکثر نیلے شلوار قمیض میں آستینیں چڑھا کر ان کو مختلف اضلاع کے طوفانی دورے کرتے بھی دیکھا گیاہے، دھول مٹی کی پروا کئے بغیر ہر پسماندہ علاقے کا دورہ کرتے دیکھا گیاہے، سائلین سے بغل گیر ہوتے اور بچوں سے محبت سے پیش آتے بھی دیکھا گیاہے، مگر اب ان کے کپڑوں کا رنگ اس سب سے کچھ زیادہ کی نشاندہی کرتا معلوم ہوتا ہے۔ 

نیلا رنگ پہننے والے فیصلہ لیتے ہوئے دوسروں کو مشاورت میں شامل کرتے ہیں ، یعنی Inclusive Decision Makingان کے طرز حکمرانی کا حصہ ہوتا ہے۔

عثمان بزدار بھی ون مین شو پر یقین نہیں رکھتے۔انہوں نے اپنی کابینہ سمیت تمام اہم عہدیداروں کو انڈیپنڈنٹ بنایا ہے، لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ فیصلے کرسکیں بجائے اس کے کہ ہر معاملے میں وزیر اعلیٰ کا ناجائز عمل دخل ہو۔ نیلے کپڑے پہننے والے لیڈرز کی یہ خوبی بھی عثمان بزدار پر پورا اترتی ہے۔وہ صرف اپنی ٹیم کو با اعتماد ہی نہیں بناتے ،عوامی فلاح سے منسلک ٹیم کی کارکردگی کی اسٹاک ٹیکنگ بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے سرکاری افسروں کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ کام کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ چھٹی۔ سیالکوٹ اور سمبڑیال کے دورے کے دوران عوامی شکایات پر اسسٹنٹ کمشنر سمیت 15بندے ہٹادئیے۔ 

عوامی ریلیف کو اولین ترجیح سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا ان کی شخصیت کی خوبی ہے۔ان کی ٹیم ان کیساتھ کمفرٹیبل محسوس کرتی ہے۔

پچھلے ادوار کے برعکس، جہاںِ افسر شاہی کو کھینچا گیا ہے وہاں افسروں کو یہ بھی اعتماد اور آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنا موقف پیش کرسکیں ورنہ پچھلےدور میں تو افسروں کا گزارا صرف جی حضوری سے ہی ممکن تھا۔ عثمان بزدار سے ملنے والے جانتے ہیں کہ وہ ملنسار ہیں ،شفیق ہیں۔

بزرگوں کا احترام کرتے ہیں ، چھوٹوں کو پیار کرتے ہیں ، کسی سے بغض اور کینہ نہیں رکھتے۔ البتہ ظالموں کو معاف نہیں کرتے، اور یہ ان کے فیصلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ 

عوام کا استحصال کرنے والوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں رکھتے، وارننگ دیتے ہیں مگر کام چور یا کرپٹ سرکاری ملازمین کو دوبارہ موقع نہیں دیتے۔

عثمان بزدارکی دیگر پالیسیز بھی انکی طرزِ حکمرانی کی عکاس ہیں۔انہوں نے کفایت شعاری کی بات کی تو اس پر عمل کر کے دکھایا۔ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف دور میں سال 2017-18کے دوران وزیر اعلیٰ آفس میں 173گاڑیاں زیر استعمال تھیں، جبکہ 2020 -21 میں 36فیصد کمی لائی گئی ۔

عثمان بزدار کے دور میں 110گاڑیاں وزیر اعلیٰ آفس میں زیر استعمال رہیں، جن میں افسروں اورا سٹاف کی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ماضی میں سالانہ تقریباً پونے چار لاکھ لیٹر فیول ان گاڑیوں پر خرچ ہوتا تھا ۔

گزشتہ مالی سال میں سوا دو لاکھ لیٹر فیول خرچ ہوا ، جس سے تقریبا 40 فیصد فیول کی بچت ہوئی ۔ماضی میں گاڑیوں کی مرمت پر 4 کروڑ سے زائد کا سالانہ خرچہ ہوا جسےکم کرکے ڈیڑھ کروڑ پر لایا گیا۔

نان سیلری بجٹ میں بھی 40 فیصد کمی لائی گئی، انٹرٹینمنٹ اور تحائف کی مد میں بھی تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہےجو 9 کروڑ سے کم ہو کر 4 کروڑ 40 لاکھ رہا۔

صوابدیدی گرانٹ میں 76فیصد کمی آئی ہے، جو کہ سال 2017-18میں 9کروڑ 60 لاکھ تھا اور سال 2020-21میں صرف 2کروڑ 30لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

وزیر اعلیٰ آفس اب سابق حکمرانوں کی طرز پر بطور جاگیر یا محل استعمال نہیں ہوتا ،وہاں اب صوبے میں کاروبار کے فروغ اور سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئےایک خصوصی ڈیسک قائم کیا جارہا ہے۔ 

غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے یہ فارن انویسٹمنٹ ڈیسک پنجاب میں سازگار ماحول بنانے کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات کیلئے آسانیاں پیدا کرے گا۔

سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ پر بھی جاری پیش رفت صوبے سمیت ملک بھر کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگی۔یعنی ہر طرف نیلے رنگ کی عملداری ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین