حیدرآباد کی مشرقی سمت میں 73کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع میرپور خاص واقع ہے، جسے ، 1806ء میں میر علی مراد تالپور نے بسایا تھا۔ یہ شہر آموں کی مختلف اقسام کی وجہ سے معروف ہے۔ میر پور خاص ریلوے لائن اور سڑک کے ذریعے کراچی سمیت ملک کے بیشتر شہروں سے ملا ہوا ہے۔ میرپور خاص ریلوے اسٹیشن ،کھوکھراپار برانچ ریلوے لائن پر واقع ہے۔ 2006ء میں میرپور خاص، کھوکھراپار ریلوے سیکشن کی میٹر گیج سے براڈ گیج میں تبدیلی کے بعد یہ شہر بھارت کے ساتھ بذریعہ ریل منسلک ہو گیا ہے۔
یہاں سے ٹرینیں جودھ پور تک جاتی ہیں جب کہ بھارت جانے والے مسافر وہاں اتر کر دہلی اور دیگر شہروں کی جانب عازم سفر ہوتے ہیں۔ میرپور خاص سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ایسا شہر واقع ہے ، جو شہر خموشاں کہلاتا ہے۔ یہاں تالپور حکم خاندان کے افراد ابدی نیند سو رہے ہیں، یہ تالپور میروں کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسے چٹوڑی قبرستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس قبرستان میں سب سے پہلے تالپور میر، میر موسیٰ تالپور کوسپرد زمین گیا تھا، لیکن اس سے قبل یہاں مقامی افراد کی چند قبریں موجود تھیں۔
’’ چٹوری ‘‘ نام سے کچھ روایات وابستہ ہیں۔ یہاں کےقدیم لوگوں کا کہنا ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان واقع ہے، اس مقام پر کسی زمانے میں ایک جھیل ہوا کرتی تھی، جس میں جلدی بیماری میں مبتلا افراد غسل کیا کرتے تھے اور حیرت انگیز طور پر یہ پانی ان کے لیے شفایاب ثابت ہوتا تھا۔ اس بیماری کو لوگ ’’چٹی ‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ سندھ کے دور درازعلاقوں سے روزانہ درجنوں لوگ اس موذی مرض سے نجات پانے کے لیے اس جھیل پرغسل کرنے کی غرض سے آتے تھے ۔جھیل کے نام کی مناسبت سے مذکورہ قبرستان کانام ’’چٹوڑی قبرستان ‘‘پڑ گیا۔ میرپور خاص کے قدیم لوگوں کی روایت کے مطابق، مذکورہ قبرستان کا یہ نام قبروں اور مقابر پرکی جانے والی نقاشی اور پچی کاری کے کاموں کی وجہ سے پڑا۔ سندھی زبان میں اس طرح کے نقش و نگار کو’’ چٹ ‘‘کہا جاتا ہے۔ اور جو’’ چٹسالی‘‘ ان مزاروں پر کی گئی ہے اس کے پس منظر میں اسے چٹوڑی کا نام دیا گیا ہے۔
تیسری روایت کے مطابق، جو لوک کہانی کی صورت میں ہے،کسی دور میں اس جگہ کو ’’چٹ کا میدان ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں تین نوجوان ، جن کی دوستی مثالی حیثیت رکھتی تھی، انہوں نے اپنے مرنے کے بعد اس جگہ پر دفن ہونے کی خواہش ظاہرکی تھی۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کا انتقال ایک ساتھ ہوا جس کے بعد انہیں ’’چٹ کے میدان‘‘ میں دفن کیا گیا جو بعد میں چٹوڑی قبرستان کے نام سے معروف ہوا۔
یہ قبرستان 62 ایکڑ رقبے پر محیط ہے، جس میں عام افراد کی قبروں کے علاوہ امیروں کے مزارات اور مقابر بھی ہیں۔ مزارات و مقابر کی تعمیر میں جس پتھر کا استعمال کیا گیا ہے وہ پرانے زمانے میں آگرہ اور جیسلمیر سے برآمد کیا جاتا تھا، جسے زرد پتھر کہا جاتا ہے۔
مکلی کے قبرستان میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے یہ پتھر بھی اسی سے مشابہت رکھتا ہے۔ ہر مقبرے پر منفرد انداز میں نقاشی کا کام کیا گیا ہےجسے دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر میں سندھی اور راجستھانی طرز تعمیر اپنایا گیا ہے۔ یہ اُس دور کے فن تعمیر کے بہترین شاہ کار ہیں۔ ان میں نہ صرف مختلف نمونے بنائے گئے ہیں بلکہ فارسی زبان میں عبارات بھی تحریر کی گئی ہیں جب کہ ہر مزار کے اوپر خوش نما گنبد بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
قبروں کی تعمیر میں بھی زرد پتھر کا استعمال کیا گیا ہے۔ امتداد زمانہ کا شکار ہوکر اب ان میں سے زیادہ تر قبریں شکستہ حالت میں ہیں۔ بعض مزارات پر کاشی گری کا کام بھی نظر آتا ہے مگر عدم توجہی کی وجہ سے مقابر اور مزارات کی منقش اینٹیں سالخوردہ ہوکر اکھڑ رہی ہیں۔
ان مزاروں کی تعمیر کے وقت ، پتھر کی جالیاں بھی لگائی گئی تھیں جب کہ ان کی ہر دیوار پہ الگ الگ نقش نگار بنائے گئے ہیں تاکہ یہ یکسانیت کا شکار نہ ہوں۔ ہرگنبد پر سفید رنگ کیا ہوا ہے۔ مقابر کے اندر اور باہر جو نقش و نگار بنائے گئے ہیں وہ جداگانہ انداز میں ہیں۔
گنبد کے اندرونی حصے پر بھی الگ ڈیزائن بنائے گئے ہیں جب کہ اندرونی دیواریں اور کونوں پر پچی کاری کاکام انتہائی دیدہ زیب ہے۔ مگر اب ان مزاروں کے در و دیوار اکھڑ رہے ہیں۔ باہر کی خوبصورتی تو کچھ قائم ہے مگر اندر کی ماند پڑ تی جارہی ہے۔ان میں سے ایک مزار وسیع و احاطے میں بنا ہوا ہے جہاں تالپورخاندان کے تمام میر محو خواب ہیں۔
ان میں تالپوردور کے پہلے حکمران سے لے کر آخری حکمران تک ،سبھی مدفون ہیں۔ ان کی قبروں کو سنگ مرمر اورپکی اینٹوں سے بنایاگیا ہےجب کہ ان کی تعمیر میں جیسلمیر کے زرد پتھر کا استعمال نہیں کیا گیا۔ چونکہ یہ قبرستان تالپور حکمران خاندان سے قبل بنایا گیا تھا، اس لیے اس میں ہمیں عام لوگوں کی قبریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق یہ قبرستان 400 سال قدیم ہے۔
یہ پاکستان کے چند قبرستانوں میں سے ایک ہے، جس میں ہندو اور مسلمانوں کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔ چٹوڑی قبرستان میں ہندوؤں کی تدفین کا عمل عرصہ دراز سے جاری ہے اور آج بھی میر پور خاص کے زیادہ تر ہندو گھرانے اپنے مردوں کو اسی گورستان میں دفناتے ہیں۔ اس میں لنجوانی برادری کی بے شمار قبریں ایک احاطے میں بنی ہوئی ہیں۔ ہر سال لنجوانی برادری سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند یہاں آتے ہیں۔ اس وقت اس قبرستان میں ایک چھوٹے سے میلے کا سماں ہوتا ہے۔ مگر عام لوگ یہاں شاذ و نادر ہی آتے ہیں۔
2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تمام تاریخی مقامات و آثار وفاقی حکومت نے صوبوں کے حوالے کردیئے تو سندھ کے قدیم آثار بھی سندھ کی صوبائی حکومت کےحصے میں آئے۔ جنوری 2015میں اقوام متحدہ کے ادارے، یونیسکو کی جانب سے سندھ کے کئی قدیم آثار کی حالت تشویش ناک حد تک مخدوش قراردی گئی ، جس میں چٹوڑی قبرستان بھی شامل ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹ کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے قدیم آثار کی بحالی کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئیں۔ چٹوڑی قبرستان میں واقع مقابر، قبروں کی تعمیر ، مرمت اور بحالی کے کام کے لیے5کروڑ51لاکھ روپے کا فنڈ رکھا گیا لیکن اس میں سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے مبینہ طور پر کرپشن کی نذر ہوگئے۔
سندھ حکومت کے سیاحت اور ٹورزم ڈپارٹمنٹ نے اسے مرمت کرانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے، جس کے بعد مقابر اور مزاروں کی مرمت کا سلسلہ جاری ہے۔ گو کہ اس کی مرمت میں پیلے پتھر کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے مگر وہ اصلی پتھر سے کافی مختلف نظر آتا ہے، لیکن بہر حال اس تاریخی قبرستان کی ازسر نو مرمت ، تزئین و آرائش کے علاوہ سیاحوں کے لیے اسے پرکشش مقام بنانے کے لیے بعض اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔